کاروباری ترقی کے راز ملازمین کو نیا جذبہ دیں ٭…ہمارا اور ملازم کا رشتہ نکاح کی طرح ہے۔ یہ مرتے دم تک باقی رہنے کے لیے ہے۔ حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے، اسی طرح نوکری میں سب سے ناپسندیدہ چیز ملازم کو فارغ کرنا ہے یہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی کہانی ہے۔ کمپنی نے دوسرے شہر میں اپنی شاخ بنائی۔ نئی شاخ کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ تجربہ کار عملہ وہاں منتقل کیا جائے۔
٭…ہمارا اور ملازم کا رشتہ نکاح کی طرح ہے۔ یہ مرتے دم تک باقی رہنے کے لیے ہے۔ حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے، اسی طرح نوکری میں سب سے ناپسندیدہ چیز ملازم کو فارغ کرنا ہے
مگر سب سے بڑی مصیبت یہ آپڑی کہ کوئی بھی کارکن اتنے دور دراز دفتر میں جانے پر آمادہ نہیں تھا۔ مینجمنٹ سر جوڑ کے بیٹھ گئی۔ آخر ایک زبردست ترکیب ذہن میں آئی۔ اعلان کردیا گیا کہ دفتر میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے پہلے 10 افراد کو اسی جگہ رہنے دیا جائے گا، جبکہ باقی عملے کو نئے دفتر میں شفٹ کردیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا اعلان تھا جس نے دفتر میں مقابلے اور محنت کی نئی دوڑ شروع کرادی۔ آپ غور کریں، ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام بھی لے لیا گیا اور دوسرے دفتر کے لیے ملازمین بھی حاصل کرلیے گئے۔ اس طریقہ کار کو تقویت یا Reinforcement کہاجاتا ہے۔ ملازمین کو تقویت دینے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں:
٭مثبت تقویت دینا ٭حوصلہ افزائی ختم کر دینا ٭منفی تقویت دینا ٭سزا دینا
مثبت تقویت دینا
جب آپ کا کوئی ملازم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور آپ اسی وقت سب کے سامنے تعریف کردیں تو ملازم کا منوں خون بڑھ جاتا ہے۔ یہ مثبت تقویت ہے۔ آپ نے چند لفظ بول کر ملازم کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ نیلسن موٹی ویشن نامی ایک ادارے نے دنیا بھر سے 750 ملازمین کا سروے کیا۔ اس سروے میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کس وقت محسوس کرتے ہیں؟ سروے کے نتائج سے پتا چلا کہ سب سے زیادہ تقویت تعریف سے ملتی ہے۔
منفی تقویت دینا
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی کا منیجر بہت ہی سخت اور درشت طبیعت ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت ملازموں کو ڈانٹتا رہتا ہے۔ ملازمین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح منیجر کو خوش کردیں تاکہ اس کی دانٹ ڈپٹ سے بچا جاسکے۔ اس طرزِ عمل کو منفی تقویت کہا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ ملازمین کو ہر وقت دبائو میں رکھنا اور بات بے بات ڈانٹ پلانا کسی طرح اچھا طریقہ کار نہیں ہے۔
حوصلہ افزائی ختم کردینا
بعض اوقات ملازم کے غلط رویے کو تبدیل کرنے کے لیے یہ حربہ بھی آزمایا جاتا ہے کہ اس کی تعریف نہیں کی جاتی۔ جس ملازم کو روزانہ تعریفی کلمات سنتے ہوں، اگر وہ کچھ عرصہ تعریفی کلمات نہیں سنے گا تو لازمی اپنا رویہ تبدیل کرے گا۔ گیری رج ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے کمپنی میں ایک عجیب اعلان کروایا۔ ہر ملازم سے کہا گیا کہ آج تک آپ نے کمپنی میں کوئی بھی نئی بات سیکھی ہو تو لکھ کر دیں۔ ہر وہ غلطی لکھ کر دیں جس کے بعد آپ نے بہت کچھ سیکھا ہو۔اگر آپ سے کمپنی کا کوئی نقصان ہوامگر اس کے بعد نئی بات سیکھنے کو ملی ہے تو وہ بھی لکھ دیں۔ ملازمین سے کہا گیا کہ کسی بھی ملازم کو سزا نہیں دی جائے گی۔ جو ملازم بھی اپنا واقعہ لکھ کر ای میل کرے گا اسے ضرور انعام دیا جائے گا۔ واقعہ لکھنے والے ملازمین میں قرعہ اندازی بھی ہوگی اور جس کا نام نکل آیا اس کو انعام کے طور پر چھٹیاں دی جائیں گی۔
سزا دینا
کسی بھی کمپنی کا سب سے مشکل کام ملازمین کو ساتھ چلانا ہوتا ہے۔ ہر ملازم کی طبیعت جدا، فطرت مختلف اور سوچ منفرد ہوتی ہے۔ ہر ملازم کو سمجھنا اور اس سے کام لینا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے منیجرز اس بات پر متفق ہیں کہ کبھی نہ کبھی انہیں سختی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کبھی نہ کبھی انہیں ملازم کو نکالنا پڑتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملازم کو نکالنا پڑتا ہے مگر ایک مسلمان کی حیثیت سے دوسرے کے جذبات، احساسات اور خیالات کی بھی رعایت رکھنی چاہیے۔ حکیم محمد سعید مرحوم کا مقولہ ہر وقت پیش نظر رکھیں: ’’ہمارا اور ملازم کا رشتہ نکاح کی طرح ہے۔ یہ مرتے دم تک باقی رہنے کے لیے ہے۔ حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے، اسی طرح نوکری میں سب سے ناپسندیدہ چیز ملازم کو فارغ کرنا ہے۔‘‘ اس لیے منیجر کو چاہیے کہ ملازم کو اپنا بھائی سمجھے۔ اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اگر اس ملازم کی جگہ منیجر کا بھائی ہوتا تو وہ کتنے جتن کرتا۔ بالکل ویسا رویہ ہی اب اپنانا چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی پیش نظر رکھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے ایک سوال کیا: اے اللہ کے نبی! ہم اپنے خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیامگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے تیسری بار سوال کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز اسے ستر مرتبہ معاف کرو۔ (ابودائود، رقم: 5164)