برداشت ایک ہندی کہاوت ہے:’’چوٹ سہے جو شہدکی، وائے گرو میں داس۔‘‘ یعنی جو شخص کسی کے الفاظ کی چوٹ کو سہہ سکتا ہے، وہ اس قابل ہے کہ وہ قائد (leader)بن سکے اور وہ لوگوں کا مخدوم بن سکے۔ اس اُصول کوا گر آفاقی تناظر میںدیکھا جائے تو اس میں ایک تاجر کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ کامیاب تجارت کی کنجی اسی میں ہے۔ایک تاجر اپنے ملازمین، معاصرین (Competitors)اور کسٹمرز کی ہر طرح کی بات کو برداشت کرنا سیکھے اور ان کے اعتراضات کا جواب ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دے ۔

 


٭…ایک مغربی کمپنی نے ایک ٹائر بنایا اور اشتہار دے دیا کہ جو شخص ہمارے ٹائر میں کوئی خرابی بتائے گا،اسے پچاس ہزار ڈالر انعام میں دیے جائیں گے،لوگوں نے انعام کی لالچ میں اس ٹائر کو بہت زیادہ تعداد میں خریدا، دوسری جانب کمپنی کو اصلاحات کرنے کا خوب موقع ملا

نرم مزاجی
کرشنا مورتی ہندوستان کے ایک بہت بڑے مفکر گزرے ہیں۔ انہیں اپنے سامعین (Audience)سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ وہ ان کی باتوں کو سنتے ہیں، عمل نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ اسی طرح کی ایک مجلس میں وہ یہ شکوہ کر رہے تھے۔ ایک شخص اٹھا اورغصے کی حالت میں کرشنا صاحب سے کہا: ’’اگر ہم آپ کی بات پر عمل نہیں کرتے تو آپ ہمیں کیوں سناتے ہیں؟‘‘ جواب میں مسٹر کرشنا نے نہایت نرمی سے جواب دیا: "sir, have you ever asked a rose,why does it bloom? "

’’جناب! کیا آپ نے کبھی گلاب سے پوچھا ہے کہ وہ کیوں کِھلتاہے؟‘‘ تنقیدی بات سن کر بپھرنے سے سوائے اپنا نقصان کرنے کے کوئی فائدہ نہیںہوتا،چنانچہ نرم مزاج فطرت خصوصاً ایک تاجر کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

چشم پوشی
ایک شخص بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھ چکا تھا،لیکن اس نے شادی نہیں کی تھی۔اسے ایک آئیڈیل رفیقہ حیات کی تلاش تھی۔کسی نے پوچھا:’’ کیا آپ کو اب تک کوئی آئیڈیل رفیقہ حیات نہیں ملی؟‘‘اس نے جواب دیا:’’ ایک خاتون ملی تھی،لیکن اسے بھی ایک آئیڈیل رفیق کی تلاش تھی اور میں اس کے معیار پر پورا نہیں اترا۔‘‘

اس میں ایک تاجر کے لیے یہ سبق ہے کہ اپنے متعلقین کی غلطیوں کو نظر انداز کرے، کیونکہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں۔ اگر اپنی ذات پر ہی نظر ڈال لی جائے تو ہزار خامیاں نکل آئیں گی۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کریں گے تو خود اپنیلیے بھی آسانیاں پیدا ہوں گی۔

آپ کا معیار
لارڈ ولیم وینٹک انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں برصغیر کے گورنر جنرل تھے۔ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی اقتصادی حالت بگڑی تو انہوں نے تاج محل کو گرانے کا حکم دیا،تاکہ اس کے سنگ مرمر کو فروخت کر کے کچھ مال کمایا جائے،لیکن لوگوں کی بھر پور مخالفت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔ایک دانشور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’تاج محل کو عوام نے نہیں بچایا،بلکہ اسے اس کے حسن نے بچایا،اگر وہ اتنا حسین نہ ہوتا تو اسے برطانوی اقتدار کے مقابلے میں اتنی حمایت کبھی نہ ملتی۔‘‘

یہی حال ہماری پروڈکٹ کا ہونا چاہیے۔ وہ اتنی اعلیٰ اور لوگوں کے معیار کے اس قدر مطابق ہونی چاہیے کہ لوگ خود اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ جہاں کہیں انہیں دو مختلف مصنوعات میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑ جائے تو بے اختیار ان کے ہاتھ ہماری پروڈکٹ کی طرف اٹھیں۔

عوامی رائے
ایک مغربی کمپنی نے ایک ٹائر بنایا اور اشتہار دے دیا کہ جو شخص ہمارے ٹائر میں کوئی خرابی بتائے گا،اسے پچاس ہزار ڈالر انعام میں دیے جائیں گے۔لوگوں نے انعام کی لالچ میں اس ٹائر کو بہت زیادہ تعداد میں خریدا۔کمپنی کو کئی شکایت نامے موصول ہوئے۔ کمپنی نے چھان بین کی اور جو خطوط واقعی قابل لحاظ تھے،انہیں الگ کر لیا گیا اور ان لوگوں کو جمع کرکے ایک پروگرام منعقد کیا۔اس میں ان لوگوں کو انعام دے دیااور ان کی بتائی ہوئی تجاویز کے مطابق ٹائر میں مزید اصلاحات کر لیں۔

اگلی مرتبہ کمپنی نے نیا ٹائربنایا اور پہلے ٹائر کے مقابلے میں اس کی قیمت دوگنی کر دی،یہ ٹائر پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں فروخت ہوا،کیونکہ اس میں عوامی رائے بھی شامل ہو گئی تھی،لہٰذا انعام نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے اسے بہت زیادہ خریدا۔

ہمارے لیے اس واقعے میں بہترین سبق ہے کہ ہم اپنی پروڈکٹ میں عوامی رائے شامل کر لیں۔اس سے ہماری پروڈکٹ کی سیل میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ ایک معیاری پروڈکٹ کے طور پر جانی جائے گی۔