کسی بھی کمپنی کے لیے انسانی وسائل (Human Resources) سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صاف ظاہر ہے کہ ٹیکنالوجی اور مشین ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ ان سے استفادہ کرنا افرادی وسائل پر منحصر ہے۔ چنانچہ جس کسی کمپنی کی افرادی قوت جس قدر مضبوط اور منظم ہو، وہی ٹیکنالوجی اور مشین سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتی ہے۔ اس کے لیے ملازمین کو تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭… کسی بھی کمپنی کے لیے مارکیٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھنے اور حریف سے مقابلہ کرنے کے لیے ملازمین کی تربیت انتہائی ضروری ہے، کیونکہ کسٹمرز کے لیے ملازم ہی کا نام کمپنی ہے
ملازمین کے لیے جس پیمانہ پر ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے، اس قدر ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کمپنیاں ملازمین کی تربیت کو محض وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتی تھیں، لیکن موجودہ دور میں ہر کمپنی ملازمین کی تربیت کو اپنا اثاثہ سمجھتی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو جاتا اور کمپنیاں اپنے اہداف بآسانی حاصل کر لیتی ہیں۔ اگر ان کی کارکردگی خراب ہے تو اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، نیز کمپنیاں مقابلہ بازی میں اپنے حریف کے ہم پلہ رہتی ہیں۔
ملازمین کو کس قسم کی ٹریننگ دی جائے؟
عام طور پر ملازمین کو دو قسم کی تربیت دی جاتی ہیں:
1 جسمانی تربیت (Physical Training)
2 تکنیکی تربیت (Soft Skills Training)
’’جسمانی تربیت‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملازمین کو کمپنی یا پلانٹ میں نصب کسی مشین کو چلانے Oprating کی تربیت دی جائے، مثلاً: ان کو کمپیوٹر چلانا سکھایا جائے، وغیرہ۔
’’تکنیکی تربیت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ملازمین کی عادات و اطوار، رویہ، چال چلن اور انتظام و انصرام کی صلاحیت کو بہتر سے بہتر بنایا جائے، ٹریننگ دینے والا (ٹرینی) اس کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ بالفاظِ دیگر تکنیکی تربیت میں ملازمین کے عادات پر توجہ مرکوز رکھ کر ان کو تبدیل یا سنوارا جاتا ہے، مثلا: مینجمنٹ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر انتظام و انصرام کیسے کرے؟ ادارے کو کس انداز سے کن بنیادوں پر چلایا جائے؟ ملازمین اپنے تلخ رویوں کو کیسے نرم اور نرم رویوں کو مزید کیسے نرم بنائیں؟ کسٹمرز سے کسی ملازم کا رویہ کیسے ہونا چاہیے؟ آپس میں گفتگو کا انداز و بیان کیسا ہونا چاہیے؟ وغیرہ۔
ان دو قسم کی تربیتوں میں تکنیکی تربیت انتہائی اہم اور مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس میں کسی ملازم کی بچپن سے پختہ عادات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب یہ ٹرینی کی قابلیت پر موقوف ہے کہ وہ ملازمین کی عادات کیسے تبدیل کرتا ہے؟ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خراب کارکردگی ہمیشہ تربیت کے فقدان کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اور بھی بہت سے خارجی عوامل ہو سکتے ہیں۔ اور نہ ہر قسم کی خراب کاکردگی کے لیے ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ فیصلہ مینجمنٹ کی اہلیت پر موقوف ہے کہ کس قسم کے خراب کارکردگی کے لیے ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے اور کس کے لیے نہیں۔ چنانچہ اس کے لیے وہ ’’تربیت کے ضروری ہونے کا تجزیہ‘‘ (Traninig Neeal Analysis) کرتے ہیں۔ تربیت کے ضروری ہونے کے تجزیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دو کارکر دگیوں یعنی کمپنی نے شروع میں کام کرنے کے لیے جو لائحہ عمل کیا تھا وہ اور موجودہ حالات میں جو کام ہوا ہے وہ، دونوں کا موازانہ کر کے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کام ہوا ہے آیا وہ پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہوا ہے یا نہیں؟ اگر وہ پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہوا ہے تب تو ٹریننگ دینے کی ضرورت نہیں اور اگر اس دوران کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کے تدارک کے لیے اگر تربیت کی ضرورت ہو تب تو وہ ٹریننگ کا اہتمام کر لیتے ہیں، وگرنہ کسی اور خارجی عامل کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ کسی بھی کمپنی کے لیے مارکیٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھنے اور حریف سے مقابلہ کرنے کے لیے ملازمین کی تربیت انتہائی ضروری ہے، کیونکہ کسٹمرز کے لیے ملازم ہی کمپنی اور پروڈکٹ ہے۔ کمپنی کے کسی ملازم کا کسٹمر سے خوش اخلاقی سے پیش آنے سے آپ کمپنی اور پروڈکٹ کی جتنی تشہیر ہو سکتی ہے وہ اس مد میں لاکھوں روپے خرچ کرنے سے نہیں ہو سکتی۔ آئیے! اپنے ملازمین کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور کمپنی کے لیے مفید سے مفید بنانے کے لیے ان کو ٹریننگ دی جائے تاکہ مارکیٹ پر چھا جائے۔