اسلامی فلسفہ معاش ہی انسانیت کا آئینہ دار ہے

بزنس آپ بھی کرتے ہیں اور ایک غیرمسلم بھی۔ آپ بھی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور ایک کافر بھی یہی سوچ رکھتا ہے۔ آپ بھی ایک آئیڈیل زندگی گزارنے کے لیے خواب تراشتے اور جسم کو گھلاتے ہیں اور وہ شخص بھی جو اللہ کا منکر ہے۔ آپ بھی بزنس کی دنیا میں کاروباری حریفوں اور مارکیٹ کا خوب مقابلہ کررہے ہیں اور اسلام بیزار بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہے، ہم میں اور غیرمسلم میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق ہے؟ یا کسب معاش کی اس دنیا میں، ’’پیٹ پوجا‘‘ کی اس فکر میں اور اسٹیٹس کی اس دوڑ میں وہ اور ہم برابر ہیں؟سوال بہت آسان اور جواب آسان تر ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

پڑوسی آپ کا رشتہ دار

اچھے اخلاق کا ذکر سن کر ہمارا ذہن صدیوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہم سوچنے لگتے ہیں کسی زمانے میں روئے ارض پر کوئی مخلوق بستی ہو گی، جو ایسی ستودہ صفات کا اہتمام کیا کرتی ہوگی۔مگر شاید ہماری یہ سوچ درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہر زمانے اور ہر شخص کے لیے ہیں۔ جو اور جب بھی انہیں اختیار کرے گا، انہیں ممکن العمل بھی پائے گا اور نہایت اثر انگیز بھی۔ آئیے! اسی زمانے کا ایک واقعہ ملاحظہ کر کے اپنی سوچ کو ایک نئے عزم اور ولولے کی تازگی بخشیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔

اُف یہ عادت

آپ شاید مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ مگر یہ ایک ثابت شدہ حقیت ہے۔ ہم کم و بیش روزانہ ایک گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، اس کے لیے ہم اپنے سگے بھائیوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ آپ کو یقینا برا لگے گا، مگر وہ خصلت ہی ایسی ہے، ایک بار نہیں ہم یہ عمل دن میں بار بار دہراتے اور اس بہیمیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تب ہم ذرا نہیں چوکتے اور یہ انتہائی گھناؤنی حرکت سرزد کرتے چلے جاتے ہیں۔ یقین مانیے، ایسا ہی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

دنیا دار؟

کیا مطلب؟ یہ دنیا دار اور دین دار کی تفریق کیا ہے؟ کون ہوتا ہے دنیا دار اور کسے کہتے ہیں دیندار؟ سچ یہ ہے کہ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں دنیا دار یا دیندار کی تفریق نہیں۔ وہ اللہ کو مانتا ہے اور پھر اللہ کی مانتا ہے۔ وہ دنیا میں رہ کر دین پر عمل کرتا اور اپنی آخرت سنوارتا ہے۔ وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھ کر زیرک کسان کی طرح اس میں سونا اگانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دنیا کی کشتی میں بیٹھتا ہے مگر پانی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا۔ وہ اس دریا میں گھٹنوں ڈوب جاتا ہے، مگر کپڑوں کو قطرہ بھر پانی نہیں لگنے دیتا۔

مزید پڑھیے۔۔۔

تجارت یوں بھی ہوتی ہے

عظیم ’اسلم شیخوپوری‘ معمر والد نے دونوں پاؤں سے معذور اپنے جواں سال بیٹے پر نگاہ ڈالی۔ ان کے تن بدن میں سردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ ایسے دن کے تصور سے لرز گئے، جب ان کا بیٹا اپنی معذوری کے باعث گلی گلی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ وہ اللہ کی رضا پر بصد جان راضی تھے، مگر وہ زمانے کے بے رحم تھپیڑوں سے شدید خوف زدہ بھی تھے۔ وہ آگے بڑھے، بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اس کی نظروں میں جھانکتے ہوئے وصیت کی: ’’بیٹا! بھیک مانگنے کو اپنے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام سمجھو۔‘‘ بیٹے کی آنکھوں میں عزم و ہمت کے کئی چاند جگمگا اٹھے۔ اس نے حیا سے نظریں میں نیچی کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی ’’عظیم اسلم شیخوپوری‘‘ کا بیج پڑ گیا اور اس نے تہ خاک پرورش پانا شروع کر دی۔

مزید پڑھیے۔۔۔

صلح ہی بہترہے

آپ کا خیال کبھی دوسرے کی چاہت سے ٹکرا جاتا ہے۔ دوسرے کی رائے کبھی آپ کے لیے قابل گوارا نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی غلط فہمی دلوں میں بغض کی چنگاریاں بھڑکا دیتی ہے۔ دوسرے کی طوطا چشمی کبھی معاہدے اور وعدے کی خلاف ورزی کا باعث بنتی ہے۔کبھی دوسرے کی کامیابی ہماری حسد پرستی کا نشانہ بن جاتی ہے۔ یہ سب اسباب ہیں، جو کبھی بھی، کسی بھی طرح جھگڑے اور تنازع کو ہوا دے سکتے ہیں۔ انسان عقل رکھتا ہے اور اپنے فائدے نقصان کو بھی خوب سمجھتا ہے تو آرا کا تصادم عموما وجود میں آتا رہتا ہے۔ معاملات میں بے اعتدالیاں بھی انسانوں سے ہوتی رہتی ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔