٭… جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں ایک قائد کی صلاحیتیں اعلی درجے کی نظر آتی ہیں
٭… نگرانی کرنا، منتظم کے لیے نہ صرف کاروباری نقطہ نظر سے ضروری ہے بلکہ یہ اس کا ایک دینی فریضہ بھی ہے
٭…کوئی بھی کام صرف ماتحتوں کو کہہ دینے سے پورے نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے لئے منتظم میں کام لینے کی صلاحیت کا ہونا
ضروری بھی ہے
اسلام ایک عالمگیر، جامع اور ہمہ جہت دین ہے۔ اس کے احکامات صرف عبادات و عقائد تک محدود نہیں بلکہ معاشرت و معاملات پر بھی حاوی ہیں۔ مروجہ انتظام کاری، جسے آج ایک آرٹ کا درجہ دے دیا گیا ہے، باقاعدہ اس کی نظریاتی (Theoretical) و عملی ((Practical مشق کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد کو ئی شخص کسی انتظامی کام کو سر انجام دینے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمام امور موجودہ دور میں ایک کامیاب کاروبار چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ ان امور کو اگر صحیح نیت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انجام دیا جائے تو نہ صرف دنیا میں وہ کام زیادہ بہتر انداز(Effective and Efficient Manner) میں ہو سکتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی اس پر اجر کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی ایک منتظم کے فرائض کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ ہے۔
منتظم کی جانب سے کام حوالے کرنے، کام کروانے کے بعد اگلا مرحلہ اس کی نگرانی کا ہے۔ اسلام ایک جامع نگرانی کا نظام فراہم کرتا ہے جس میں صرف کام کی نگرانی ہی نہیں بلکہ ماتحتوں کے اخلاق، عادات واطواراور اعما ل کی نگرانی بھی شامل ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب نگران ہیں اور (قیامت کے دن) ہر ایک سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اس سلسلے میں پہلا سوال تو یہ کہ جدید انتظام کاری کیا ہے؟ انتظام کاری کی مشہورکتاب (Management, Richard L Daft) میںانتظام کاری کی تعریف ان الفاظ میںکی گئی ہے:
’’ادارے کے مقاصد کو موثر اندازمیںکم از کم وسائل میں منصوبہ بندی، تنظیم سازی، رہنمائی ،قیادت اور نگرانی کے ذریعے حاصل کرنا۔‘‘
اس تعریف کی رو سے ایک منتظم کے چار فرائض ہیں:(1) منصوبہ بندی(Planning): اہداف کاتعین اور ان کوحاصل کرنے کے لائحہ عمل کو منصوبہ بندی کہتے ہیں۔(2) تنظیم سازی (Organizing):کام کروانے کے لیے ذمہ داریاں تفویض کرنا اور کام تقسیم کرنا تنظیم سازی کہلاتاہے۔(3) رہنمائی (Leading): ذاتی اثر استعمال کرتے ہوئے ماتحتوں سے حوصلہ افزائی کے ساتھ کام کروانا۔(4) نگرانی(Controlling): ماتحتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرنا کہ وہ اہداف کے مطابق کام کررہے ہیں یا نہیں اور انحراف کی صورت میں ضروری ہدایات دینا۔
انتظام کاری کی تعریف کا جائزہ:
انتظام کاری کی تعریف کا حاصل یہ ہے:’’وسائل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اہداف حاصل کرنا۔ اب اسلامی تعلیمات کی رو سے اس کا جائزہ لیا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام اس قسم کی سرگرمیوں، جن کے ذریعے اللہ کے دیے ہوئے وسائل کا بہتر انداز میں استعمال ہوسکے، اس کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی کرتا ہے، کیونکہ اسلام وسائل کے بہتر سے بہتر استعمال کا داعی ہے۔ اسی وجہ سے فضول خرچی اور وسائل کو ضائع کرنا ممنوع قرار دیا گیا، جبکہ کفایت شعاری، وسائل کے بہترین طریقے پر استعمال کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے قرآن و حدیث میں فضول خرچی کی بڑے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان یعنی لباس جسم پر لے کر آؤ اور کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو! کہ اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 31)
مزید سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا:’’رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو ان کا حق دو اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔ یقین جانو کہ جولوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل: آیت 26، 27)
مشکوۃ المصابیح کی حدیث ہے:’’خرچ میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔‘‘
مشکوۃ ہی کی ایک اور حدیث میں ہے:’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو وضو میں بھی زیادہ پانی استعما ل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘ (مشکوۃ شریف، جلد اول، حدیث: 240)
حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں:’’فضول بحث و مباحثہ، مال کو ضائع کرنااورزیادہ سوال کرنا۔‘‘ (صحیح البخاری، حدیث: 1477)
منصوبہ بندی اور اسلام (Planning and Islam):
اللہ تعالی کی یہ کائنات منصوبہ بندی کا شاہکا رہے۔ جس میں اللہ تعالی نے قیامت تک آنے والے حالات و واقعات اور ضروریات کو ایک منصوبے کے تحت رکھ دیا ہے۔ اس کا اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں اظہا ر بھی فرمایا ہے۔ سورۃ الفرقان میں ہے: ’’وہ ذات جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت کی تنہا مالک ہے اور جس نے نہ تو کوئی بیٹا بنایا ہے، اور نہ اس کی بادشاہت میں کوئی شریک ہے، اور جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کو ایک نپا تُلا انداز عطا کیا ہے۔‘‘ (سورۃ الفرقان، آیت: 2)یہی سورۃ الرعد میں بھی بیان کیا گیا ہے:’’جس کسی مادہ کو جو حمل ہوتا ہے، اللہ اس کو بھی جانتا ہے، اور ماؤں کے رحم میں جو کوئی کمی بیشی ہوتی ہے اس کو بھی۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔‘‘ (سورۃ ا لرعد، آیت: 8)
تنظیم سازی اور اسلام(Organizing and Islam):
اللہ نے اس عالم کو چلانے کے لیے عظیم تنظیم سازی فرمائی ہے۔ جس کا قرآن و حدیث سے ثبوت ملتا ہے۔ مختلف فرشتوں کے ذمہ مختلف کاموں کا لگانا، انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت، ہر انسان کے ساتھ کراماً کاتبین کو روزانہ کی کارکردگی کی رپورٹ کے لیے مقرر کردینا، یہ سب اللہ کی جانب سے تنظیم سازی کے مظاہر ہیں۔ مزیداسلامی طرز حکومت میں مرکزی امیر، گورنر، شعبہ جاتی تقسیم، پھر جہاد کے میدان میں صف بندی، سالار کا تقرر، نماز میں ایک امام کے پیچھے نماز کی ادائیگی، یہ وہ تمام باتیں ہیں جس سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اسلام نظم و ضبط، تنظیم سازی کے لیے اپنے تئیں آئیڈیل تعلیمات رکھتا ہے۔
قیادت اور اسلام(Leading and Islam):
کوئی بھی کام صرف ماتحتوں کو کہہ دینے سے پورے نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے لیے منتظم میں قائدانہ صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ماتحت اس کی باتیں اس کے ذاتی اثر کی وجہ سے مانیں اور دل جوئی اور لگن کے ساتھ کام کریں۔ قائدانہ صلاحیت کو دیکھیں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں ایک قائد کی صلاحیتیں اعلی درجے کی نظر آتی ہیں اور دوسری جانب اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہواور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب، آیت:21)
تو اس طرح ایک مسلمان تاجر، صنعت کار منتظم کے لیے سنت کی پیروی بالخصوص اعلی نبوی اخلاق کو اپنانا نہ صرف اس کا دینی فریضہ ہے، بلکہ اس کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے آئیڈیل بھی ہے۔
نگرانی اور اسلام(Controlling and Islam):
منتظم کی جانب سے کام حوالے کرنے، کام کروانے کے بعد اگلا مرحلہ اس کی نگرانی کا ہے۔ اسلام ایک جامع نگرانی کا نظام فراہم کرتا ہے جس میں صرف کام کی نگرانی ہی نہیں بلکہ ماتحتوں کے اخلاق، عادات واطواراور اعما ل کی نگرانی بھی شامل ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب نگران ہیں اور (قیامت کے دن) ہر ایک سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔امام اپنی رعایا کا نگران ہے، اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر پر نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ملازم اپنے آقا کے مال میں نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (راوی) کہتے ہیں میں گمان کرتاہوں کہ مزید فرمایا: آدمی اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ (خلاصہ یہ کہ) تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث : 893)بہر کیف! اس طرح نگرانی کرنا، منتظم کے لیے نہ صرف کاروباری نقطہ نظر سے ضروری ہے بلکہ یہ اس کا ایک دینی فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں پر نظر رکھے اور ان کے اعمال واخلاق کی اصلاح کی فکر بھی کرے۔