اگر آپ اپنا پیسہ اپنے دوست کے چلتے ہوئے کاروبار میں لگا رہے ہیں۔ وہ آپ کے ان پیسوں کے ذریعے کمائی کر رہا ہے۔ گویا اس نے آپ سے قرض لیا اور اب آپ اس سے اپنے پیسے کے استعمال کے بدلے میں نفع چاہتے ہیں۔ یعنی آپ پیسے پر پیسہ کمانا چاہتے ہیں، یہ جائز نہیں، مگر کیوں؟ اس کا جواب حاصل کرنے سے دنیا بھر میں پھیلے سودی معاملات کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ اس ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رقم کمانے کی اس صورت کو منع کیا ہے، دوسری جانب اس میں وہ حکمت بھی ہے جو ہر مسلمان بآسانی سمجھ سکتا ہے، یعنی اس میں پایا جانے والا صریح ظلم ہے۔ آیئے! تفصیل سمجھتے ہیں۔
کاروباری معاملات میں قرض کا لین دین ہو سکتا ہے لیکن بغیر سود کے، جس سے اس کی از خود حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس کے بجائے شراکت داری کے اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔اس میں برکت کا وعدہ کیا گیا ہے
مثال کے طور پر خالد نے 10فیصد کی شرح سے نفع پر اپنے دس لاکھ روپے دوست کو دے دیے، دوست نے یہ رقم کاروبار میں لگا دی۔ اب ظاہرہے کہ کاروبار میں نفع ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ اس کاروبار میں نفع ہو، اسی طرح اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ اسے کاروبار میں نقصان ہوجائے۔ اب اگر سرمایہ کاری قرض کی بنیاد پر ہورہی ہے توقرض دینے والے نے اپنا نفع متعین کرلیا، جیسے خالد نے 10فیصد طے کیا۔لیکنخالدکا دوست جس نے کاروبار کیا، کاروبارکی اونچ نیچ برداشت کی، اس کا نفع غیر یقینی ہے۔ اس کو کاروبار میں نفع بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی، مزید کم نفع بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ اس کے لیے صورت حال بالکل غیر یقینی ہے۔
ذرا سوچیے! کیا یہ ظلم نہیںکہ ایک پارٹی جس کا صرف پیسہ ہے، وہ اپنا پیسہ کاروبار میںلگ جانے کی بنیاد پر متعین نفع کی حق دارٹھہرے او ر دوسری پارٹی کاروبار کے اتار چڑھاؤ کی پوری ذمہ داری اٹھائے، اس کے باوجود اس کا نفع بالکل غیر یقینی ہے، اسے نفع اور نقصان دونوں کا خطرہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ظلم کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر خالدنے اپنے دوست کو 10لاکھ روپے دیے، اس کا اپنا سرمایہ کاروبار میں 50لاکھ لگا ہوا تھا۔ بالآخر اسے کاروبار میں15لاکھ خالص نفع ہوا، یہ 15 لاکھ ایک لاکھ سود کی ادائیگی کے بعد کے ہیں۔ اس صورت حال میں انصاف کی نظرسے دیکھا جائے تو کل سرمایہ کاروبار میں 60 لاکھ تھا۔جس میں 10لاکھخالد کا تھا، جو کہ کل سرمائے کاتقریبا 17فیصد بنتا ہے، کل نفع15لاکھ ہوا، جس کا 17فیصد ڈھائی لاکھ بنتا ہے۔ مزید اگر خالد کے لیے نفع کی کوئی شرح طے کر لی جاتی تو یہ بڑھ بھی سکتا تھا۔ لیکن سودی قرض کی صورت میں خالد صرف ایک لاکھ کا حق دار بنتا ہے۔ باقی نفع چاہے کتنا بھی ہو سب خالد کے دوست کا ہے۔ اس پر مزید ناانصافی یہ ہوگی کہ چونکہ سودی اخراجات، وہ اپنی پیداواری لاگت کا حصہ بنالے گا، جس سے اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی، معیشت میں مہنگائی ہوگی، جس کے نتیجے میں سود میں کمایا گیا نفع بھی خالدکی جیب سے نکل جائے گا۔ کاروبار اسی طرح چلتا رہے تو معاشرے میں ایک طبقہ مال داروں کا اور ایک غریبوں کا پیدا ہوجاتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہخالدکے دوست کو کاروبار میں نقصان ہوگیا۔ کاروباری سرمایہ 60لاکھ سے کم ہو کر40 لاکھ کا رہ گیا، اب خالد تواپنا نفع لینے کے لیے تیار ہے کہ مجھے تو کہیں سے بھی میرا اصل 10لاکھ اور ایک لاکھ نفع کل 11 لاکھ کرکے دو۔اب خالد کے دوست کے ساتھ ظلم یہ ہے کہ ایک تو کاروبار میں نقصان ہوگیا، دوسرا خالد اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس سے نفع لینے کے لیے تیار ہے۔
اس جائزے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیںکہ سود کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرنے کی صورت میںکسی ایک کے ساتھ ظلم ضرور ہوگا، یا تو سرمایہ لگانے والے کے ساتھ کہ کاروبار کرنے والا طے شدہ سود دے کرپورے نفع (چاہے کتنا بھی ہو) کا تن تنہا مالک بن جائے یا پھر کاروبار کرنے والے کے ساتھ کہ نقصان کے باوجود سود کا بوجھ اسے اٹھانا پڑے گا۔ اسی لیے اسلام نے اس ظلم کی جڑ کاٹتے ہوئے سود کونہایت سختی کے ساتھ حرام قرار دیا۔
خلاصہ یہ کہ قرض کا لین دین باہمی امداد کے لیے ناصرف جائزہے، بلکہ قرض دینے والے کے لیے باعث اجر ہے۔ ہاں! قرض لینے کو عادت نہ بنایا جائے۔ دوسری جانب کاروباری معاملات میں قرض کا لین دین ہو سکتا ہے لیکن بغیر سود کے، جس سے اس کی از خود حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس کے بجائے شراکت داری کے اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔اس میں برکت کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شریعت کے مطابق اپنا کاروبارکریں، کاروبار کے احکام و مسائل کو سیکھیں، عمل کریںاور دوسروںکو دعوت دیں۔ اگر ہم ہمت کریں تو ضرور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی، ہمارے کاروبار میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی، ہماری روزی میں برکت ہوگی، اللہ پاک سکون عطا فرمائیں گے۔ یاد رکھیے! اللہ کی نافرمانی کے ساتھ سکون کی تلاش ایسے ہے جیسے آگ کے ساتھ ٹھنڈک کی تلاش، اللہ پاک ہم سب سے راضی ہوجائے، آمین!