آصف ایک صاحب حیثیت آدمی ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالی نے اسے ایک درد مند دل بھی دیا ہے۔ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ ضرورت مند، اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے پاس آتے ہیں۔ یہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب کوئی اس سے اپنی ضرورت بیان کرتا ہے تو وہ اس کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، لیکن جب کوئی قرض مانگتا ہے تو یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔


٭… قرض لینا شریعت کی نظر میں اچھا نہیں ہے، جب تک بغیر قرض کے گزارا ہو سکتا ہو، شریعت قرض لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے ٭… ایک حکم تو اللہ تعالی کی طرف سے یہ ہے کہ جب کوئی قرض کا معاملہ ہو تو اسے لکھ لیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہ کیا جائے

مگر کیوں؟ وہ کہتا ہے: لوگ ’’قرض‘‘ کہتے ضرور ہیں، لیکن اسے سمجھتے ’’صدقہ‘‘ یا ’’گفٹ‘‘ ہی ہیں۔ قرض لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ میں کس کس کے پیچھے بھاگوں؟ میں نے حل یہ نکالا کہ اگر کسی کی مدد عطیہ کی صورت میں کر سکوں تو ٹھیک، ورنہ معذرت کر لیتا ہوں۔

یہ کہانی صرف آصف کی نہیں، بلکہ ہم میں سے ہر دوسرے شخص کی ہے۔ ہر ایک اس وجہ سے قرض دینے سے ڈرتا ہے کہ سامنے والا کھا جائے گا، حالانکہ قرض کا معاملہ مسلمانوں میں شروع سے رائج رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک مسلمان کی خیرخواہی اور عزت نفس کے ساتھ مدد کی جا سکتی ہے، لیکن آج یہ معاملہ یا تو سود کی بنیاد پر کیا جاتا ہے یا اس وقت جب قرض دینے والے کے پیش نظر مال میں اضافہ ہوتاہے۔ وہ قرض لینے والے کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر سود کمانا چاہ رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ شریعت میں حرام ہے۔ دوسری جانب وہ لوگ جو سود سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے آصف جیسی صورت حال ہوتی ہے۔ وہ قرض کا معاملہ ہی نہیں کرنا چاہتے۔

قرض کے فضائل اور مسائل دونوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں قرض دہندہ اور قرض خواہ دونوں قرض کے شرعی احکام سے واقف ہو جائیں اور اس کا اہتمام کریں تو قرض کے مسائل سے بچتے ہوئے اس کے جائز فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں۔ اگر قرض لینے والا اور دینے والا اسلام کی فراہم کردہ تعلیمات کو مد نظر رکھیں تو یہ ضرورت کا معاملہ بہت بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ آئیے! ہم ذرا قرض کے فضائل اور مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ تاکہ ہم چاہے قرض دینے والے ہوں یا لینے والے… ایک مسلمان والا رویہ اختیار کر سکیں۔
قرض کب لیا جا سکتا ہے؟
پہلا سوال تو یہ ہے کہ قرض کب لیں؟
اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت قرض کی دونوں پارٹیوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ ایسے احکامات شریعت ہمیں دیتی ہے جن سے قرض لینے والا بھی قرض لینے کا عادی نہ ہو۔ ضرورت کے وقت ہی وہ قرض لے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرض دینے والے کا قرض ضائع نہ ہو، لہذا قرض لینا اس صورت میں درست ہو گا جب قرض لینے والا درج ذیل تین باتوں کا خیال رکھے:
1 قرض لینے کا معقول اور جائز سبب ہو
پہلی بات تو یہ مد نظر رہے کہ قرض لینا شریعت کی نظر میں اچھا نہیں ہے، جب تک بغیر قرض کے گزارا ہو سکتا ہو، شریعت قرض لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ جب کوئی معقول اور جائز ضرورت بغیر قرض کے پوری نہ ہو رہی ہو تو پھر قرض لینے کی اجازت ہے۔ اس اصول پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں، آج ہم اچھی کوٹھی، اچھی گاڑی کے لیے، وہ بھی صرف دوسروں کو نیچا دکھانے کی خاطر، قرض لے رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایک معقول وجہ ہے قرض لینے کی؟ شادی بیاہ کے موقع پر شریعت ہمیں سادگی کی تعلیم دیتی ہے، حدیث میں اس نکاح کو سب سے زیادہ بابرکت قرار دیا گیا ہے جس میں کم سے کم خرچہ ہو۔ دوسری جانب ہم اپنی شادی بیاہ کی تقریبات کو دیکھیں۔ اکثر لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں، بھائی شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے، دھوم دھام سے ہونی چاہیے اور اس دھوم دھام کے پیچھے قرض لیا جا رہا ہے، سوچیں! کیا یہ معقول وجہ ہے؟ ہر گز نہیں! اللہ کے لیے ہم اپنے اوپر رحم کریں۔ شادی میں دکھاوا کرنا حرام ہے، اس کے لیے قرض لینا کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا۔ ہم بغیر قرض لیے سادگی کے ساتھ کی گئی شادیوں کو رواج دیں۔

2 ادائیگی کی سچی نیت
دوسری اہم تعلیم قرض لینے والے کے لیے یہ ہے کہ اس کی قرض کی واپسی کی سچی نیت بھی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ پیسے ہڑپ کرنے کی نیت ہو۔ حدیث میں اس شخص کے لیے بد دعا آئی ہے کہ جو لوگوں سے مال ہڑپ کرنے کی نیت سے قرض لیتا ہو اللہ تعالی اسے برباد کرے۔ اس اصول پر بھی ہم غور کریں، جب قرض لے رہے ہیں تو دل میں کیا نیت ہے۔ اللہ تعالی دلوں کے حال سے واقف ہے، لہذا اگر قرض لینے کی ضرورت پڑے تو دینے کی نیت بھی ہو۔

3 مستقبل میں ادائیگی کے امکانات
تیسری بات قرض لینے والے کے لیے یہ ہے کہ اس کے لیے مستقبل میں ادائیگی کے امکانا ت بھی ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ ذریعہ معاش کوئی ہے نہیں، لیکن قرض دینے والے کو جھوٹا آسرا دے دے۔ اس کی شرعاً اجازت نہیں۔ قرض لینا اسی وقت درست ہو گا جب ادائیگی کا بظاہر امکان ہو، ورنہ قرض دینے والے کو صاف کہہ دے کہ یہ حالت ہے۔

4 قرض دینے کی فضیلت
ایک طرف شریعت قرض لینے والے کو محتاط کرتی ہے کہ صرف بوقت ضرورت ہی قرض کی طرف دیکھا جائے۔ دوسری جانب دین نے یہ ترغیب دی ہے کہ ضرورت کے وقت مالدار کو قرض دینے میں کنجوسی سے بھی کام نہیں لینا چاہیے۔ شریعت نے قرض دینے کے بہت سے فضائل بیان کیے ہیں۔ چند یہ ہیں:
1 قرض دینا آدھے صدقے کے برابر ہے۔
2 دو دفعہ قرض دینا ایسا ہے جیسے اس رقم کو صدقہ کر دیا۔
3 صدقے کا اجر 10 گنا اور قرض کا 18 گنا ہے۔
4 قرض دینے والے کو وقتِ ادائیگی تک روزانہ اتنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب دیا جاتا رہتا ہے۔
5 وقت آ جانے کے بعد غریب کو مہلت دینے پر ہر دن دو گنا صدقہ کرنے کا اجر ملے گا۔
یہ تمام باتیں احادیث سے ثابت ہیں۔ ان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرض دینا ایک نیک عمل ہے، جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرض دینے والے کے لیے دنیا و آخرت کی سہولت اور صدقہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرمانے کا وعدہ ہے۔
5 شریعت قرض ضائع کرنا نہیں چاہتی
قرض دینے کے فضائل کے ساتھ ساتھ شریعت نے قرض کی واپسی کے لیے بھی ایسی تعلیمات دی ہیں جن سے قرض کی واپسی یقینی ہو سکے۔ ایک طرف شریعت نے قرض لینے والے کو بھی ایسی ہدایات دی ہیں جن سے وہ قرض کی ادائیگی کی فکر کرے۔ یوں قرض دینے والے کا حق ضائع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ قرض دیتے وقت ہی کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن سے قرض دینے والے کا حق محفوظ ہو جائے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

قرض کے معاملے کے آداب
سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 282 جو کہ قرآ ن کریم کی طویل ترین آیت ہے، اس کا نام مفسرین نے ’’آیت مداینہ‘‘ ’’یعنی قرض والی آیت مبارکہ‘‘ رکھا ہے، اللہ تعالی نے قرض کے آداب میں نازل فرمائی ہے، جس سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں:

1 تحریری معاہدہ
ایک حکم تو اللہ تعالی کی طرف سے یہ ہے کہ جب کوئی قرض کا معاملہ ہو تو اسے لکھ لیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہ کیا جائے۔

2 ادائیگی کی تاریخ کا تعین
دوسری بات یہ کہ قرض دیتے وقت ہی قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کر لی جائے تاکہ قرض لینے والا بھی اس وقت تک قرض کی ادائیگی کی فکر کرے اور دینے والا بھی اس تاریخ سے پہلے مقروض کو تنگ نہ کرے۔

3 گواہ بنانا
تیسرا ادب اس آیت میں یہ سکھایا گیا ہے کہ قرض پر گواہ بھی بنا لیے جائیں۔ ان گواہوں کا فائدہ اس وقت ہو گا جب ان کا کسی بات میں اختلاف ہو جائے، معاملہ کورٹ میں چلا جائے۔ تو یہ گواہ حق دار کو حق دلانے میں کردار ادا کریں گے۔

قرض کی وصولی یقینی بنانے کے لیے اقدامات
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن سے قرض کی وصولی یقینی بن سکے۔ وہ اقدامات یہ ہیں:

1 ضامن لے لینا
شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ قرض دینے والا قرض لینے والے سے ضامن کا مطالبہ کرے۔ یہ ضامن قرض لینے والے کی ذمہ داری لے گا کہ یہ وقت پر قرض ادا کر دے گا۔ اگر یہ وقت پر قرض ادا نہ کر سکے تو قرض دینے والا ضامن سے قرض کا مطالبہ کرے گا۔ اس طرح اس کا قرض ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔

2 قرض کا حوالے کر دینا.
ایک صورت قرض کو محفوظ کرنے کی یہ ہے کہ قرض کو حوالے کر دیا جائے۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ قرض دینے والا کہتا ہے کہ تم تو قرض کی ادائیگی میں بہت سست ہو، اگر تم کسی اور کو یہ قرض حوالے کر دو کہ میں یہ قرض تمہارے بجائے اس سے لے لوں، تم اور وہ خود حساب کر لینا۔ اس صورت میں قرض دینے والا اس تیسرے شخص سے ہی قرض وصول کر لے گا۔ اس طرح اس کا قرض محفوظ ہو جائے گا۔ اس کی ایک اور صورت جو ہمارے یہاں رائج ہے کہ جب قسطوں پر خریداری کی جا رہی ہوتی ہے تو عموماً کہا جاتا ہے کہ آپ مستقبل کی تاریخوں کے چیک دے دیں۔ یہ درحقیقت حوالہ ہی ہے کہ آپ کا قرض بینک ادا کر دے گا۔ آپ کا اور بینک کا حساب الگ ہے۔

3 رہن رکھ لینا
رہن رکھ لینے کی اجازت بھی سورۃ البقرہ کی ’’آیت مداینہ‘‘ میں آئی ہے کہ قرض دینے والا، رہن کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے کہ تم کوئی چیز میرے پاس رکھواؤ، جب تک کہ تم قرض ادا نہیں کر دو گے یہ چیز میرے پاس رکھی رہے گی۔ قرض کی وصولی یقینی کیسے بنائیں؟

اگر ان اقدامات کے باوجود بھی قرض کی وصولی نہیں ہوئی تو اسلامی تعلیمات سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ:
1 قرض دینے والا عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، جس پر عدالت اس شخص کو قید میں ڈال سکتی ہے۔
2 عدالت ایسے شخص کے سفر پر پابندی لگا سکتی ہے۔
3 عدالت قرض کی ادائیگی کے لیے ایسے شخص کا مال نیلام کر سکتی ہے۔
4 اس کے رہن میں رکھوایا ہوا مال فروخت کیا جا سکتا ہے۔
5 اگر قرض لینے والا شخص مر جائے تو اس کی وصیت کو پورا کرنے اور میراث کی تقسیم سے پہلے، قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔
(باقی آئندہ)