عمر ایک چھوٹا تاجر ہے۔ وہ لوہے کے کام کے چھوٹے ٹھیکے لیتا ہے۔ ایک کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ کمپنی اسے مسلسل کچھ نا کچھ کام دیتی رہتی ہے۔ جس سے اس کا گزارا اچھا چل رہا ہے۔ اس دوران کنسٹرکشن کمپنی کو ایک بڑا پروجیکٹ مل جاتا ہے۔ اس میں لوہے کا تمام کام عمر کو دے دیا جاتا ہے۔ کام بڑا ہے۔ عمر اپنے سرمائے سے کام نہیں کر سکتا۔ وہ سوچتا ہے کیوں نا میں کسی سے قرض لے لوں۔ کام چل پڑے گا اور پھر میں ادا کردوں گا۔
٭… کفالہ کا عقد، عقد کی پارٹیوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ معاملہ طے کرنے سے وجود میں آ جاتا ہے، جیسے عامر، عمر کی ضمانت لینے کے لیے تیار ہے۔ ’’عامر، عمر اور وہ ادارہ‘‘ جس سے یہ قرض لینا چاہ رہا ہے۔ تینوں مل کر کفالہ کا معاملہ کر لیں تو یہ عقد ہو جائے گا
اسے ایک دفعہ تو بینک کا خیال آتا ہے، لیکن وہاں تو سود دینا پڑے گا… اور سود لینے اور دینے والے کے لیے تو اللہ تعالی کا اعلان جنگ ہے… اب کیا کرے؟ چلو اسلامی بینک کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن… لیکن یہاں سے تو سرمایہ لینے کی شرائط بہت زیادہ ہیں۔ کافی اثاثے وغیرہ رہن کے طور پر رکھوانے پڑیں گے۔ اب کیا کریں؟ وہ اسی سوچ و بچار میں ہوتا ہے کہ اس کا ایک دوست بتاتا ہے کہ ایک ادارہ ہے جو چھوٹے تاجروں کو غیرسودی قرض دیتا ہے۔ چلو اس سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ دوست کے ہمراہ چل کر اس ادارے کو اپنے کاروبار کا بتاتا ہے۔ اپنی ضرورت بتاتا ہے۔ وہ اسے قرض دینے پر راضی ہو جاتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آپ کے پاس کوئی چیز رہن کے طور پر رکھوانے کو نہیں ہے، لیکن ہم کیسے تسلی کر لیں کہ آپ قرض واپس کر دیں گے؟ آپ اس کے لیے کوئی ضمانت لائیں۔ کوئی اچھی ساکھ والا ادارہ یا شخص آپ کی ضمانت لے کہ آپ ادائیگی کر دیں گے تو آپ کو قرض مل جائے گا۔ عمر اپنی کنسٹرکشن کمپنی کے جی ایم سے رابطہ کرتا ہے۔ وہ اس کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ عمر ان کی ضمانت لیتا ہے اور قرض لے کر اپنی کاروباری ضروریات پوری کر لیتا ہے۔
اس قسم کی صورت حال کا سامنا ہمیں کاروباری زندگی میں کرنا پڑ جاتا ہے۔ جب مواقع سامنے موجود ہیں۔ سرمایہ دینے والا سرمایہ دینے کے لیے تیار ہے، لیکن ضمانت چاہیے۔ ہمیں ضمانت دینے والے مل جاتے ہیں۔ بلکہ مارکیٹ میں بہت سے افراد اور ادارے ہیں۔ جو اپنی شرائط پر ضمانت دے بھی دیتے ہیں۔ یہ سب ہم کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ان معاملات کے بارے میں شریعت ہم سے کیا کہتی ہے۔ اس کا خیال ہم کم ہی رکھتے ہیں۔ فقہ میں ضمانت کے اس معاملے کو ’’کفالہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آئیے! علم دین حاصل کریں۔ علم دین کا ایک باب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! دین کا ایک مسئلہ سیکھ لینا ہزار نوافل سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
کفالہ کیا ہے؟
ڈکشنر ی میں ’’کفالہ‘‘ کے معنی ملانے کے آتے ہیں۔ فقہ کی زبان میںکفالہ سے مراد کسی کی ذمہ داری کو اپنے ذمہ میں لے لینا جب کہ اصل کی ذمہ داری بھی باقی رہے، مثلاً: عمر قرض لینے کے لیے عامر سے کہتا ہے کہ اس ادارے کے لیے میری کفالت لے لو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عامر، عمر کی ذمہ داری کو اپنے ذمے لے رہا ہو گا، لیکن عمر بھی اس قرض کا ذمہ دار رہے گا۔ اس طرح قرض دینے والا اپنے قرض کی واپسی کے بارے میں مطمئن ہو جاتا ہے کہ بہرحال اسے واپس مل ہی جائے گا۔ عمر نہیں دے گا تو عامر تو دے ہی دے گا۔
شریعت میں کفالہ
قرآن مجید میں سورۃ یوسف میں کفالۃ کا ذکر ملتا ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے شاہی پیالہ لانے پر اعلان فرمایا تو اس پر اعلان کرنے والے نے ضمانت لی کہ اس انعام ملنے کا میں ضامن ہوں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں کسی کے ضامن بننے کی اجازت ہے۔
یہ بات احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کئی مواقع پر خود میت کے قرض کے کفیل بن گئے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں کفالہ کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔
کفالت کس چیز کی لی جا سکتی ہے؟
کفالہ کی دو قسمیں ہمیں اسلامی تعلیمات میں ملتی ہیں: (الف) جان کی کفالت
اس صورت میں کسی شخص کو کہیں حاضر کرنے کی ضمانت لی جاتی ہے۔ جیسے بوقت ضرورت عدالت میں حاضر کرنے کی ضمانت لے لی جائے۔ یہ اس شخص کے حاضر کرنے کی ضمانت ہے۔
(ب) مال کی کفالت
دوسری صورت میں اس بات کی ضمانت لی جاتی ہے کہ اگر اس شخص نے ادائیگی نہیں کی تو میں ادا کروں گا۔ قرض کی حفاظت کے لیے عموماً یہ صورت اختیار کی جاتی ہے۔ ایک تاجر ہونے کی حیثیت سے ہمیں زیادہ تر اس دوسری قسم کی کفالۃ سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ آئیے! اس کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
مال کی کفالت کی تین صورتیں ہیں:
1 قرض کی ادائیگی کی کفالت
عمر کو قرض کی ضرورت تھی۔ قرض دینے والا اپنے قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کفالت کا مطالبہ کرتا ہے کہ کوئی کفیل لاؤ۔ یہ صورت قرض کی ادائیگی کی یقین دہانی کے لیے کفالت کی ہے۔
2 مال پر قبضہ کروانے کی کفالت
تجارت میں ایک اور کفالت کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک شخص نے سودا کر لیا مثال کے طور پر یہ گھر میں نے تمہیں بیچ دیا۔ ابھی گھر بیچنے والے کے قبضے میں ہی ہے۔ اب اصولا خریدار ادائیگی کر دے گا پھر گھر پر قبضہ کروایا جائے گا۔ اس موقع پر خریدار کہتا ہے کہ ٹھیک ہے میں گھرکی قیمت ادا کر دیتا ہوں، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تم گھر مجھے دے دو گے۔ تم کوئی ضامن لاؤ جو اس بات کی ضمانت لے کہ وہ قبضہ کروا کر دے گا۔ اب یہ ضمانت قبضے کی ہے کہ قبضہ کروا کر دینے کی ضمانت لی جا رہی ہے۔ ایک اور صورت کرائے داری کے معاملے میں ہوتی ہے۔ کرایہ داری کے معاملے میں مالک نے کرایہ دار کو مثال کے طور پر گھر دے دیا۔ ایک خطرہ اسے ہے کہ یہ کرایہ داری کے معاملہ کے ختم ہونے پر گھر واپس کرے یا نہ کرے؟ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے مالک کرایہ دار سے کہتا ہے کہ تم کسی قابل اعتبار آدمی کی ضمانت دو کہ تم کرایہ داری کے معاملہ کی مدت ختم ہونے پر میرا گھر میرے حوالے کر دو گے۔ یہ ضمانت قبضہ کروانے پر ہے۔
3 متوقع نقصان کی کفالت
ایک اور صورت جس کی تجارت میں ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک گھر خریدا۔ آپ اس کے کاغذات دیکھ بھال کے لیے لے رہے ہیں، لیکن یہ ڈر ہے کہ کہیں کوئی اور مالک بن کر نہ آ جائے۔ کسی کا حق اس میں نہ نکل آئے؟ اس خوف سے بچنے کے لیے آپ بیچنے والے سے کہتے ہیں کہ تم گارنٹی لو کہ کسی کا حق اس گھر سے متعلق نہیں ہے۔ مزید اگر کسی کا حق اس گھر میں نکل آیا، مجھے جو نقصان ہوا تم اس کی ذمہ دار ہو گے۔ یہ ضمانت درحقیقت مستقبل میں ہو نے والے متوقع نقصان کی ہے۔
کفالہ کا عقد کس طرح منعقد ہوتا ہے؟
کفالہ کا عقد، عقد کی پارٹیوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ معاملہ طے کرنے سے وجود میں آ جاتا ہے۔ جیسے عامر، عمر کی ضمانت لینے کے لیے تیار ہے۔ ’’عامر، عمر اور وہ ادارہ‘‘ جس سے یہ قرض لینا چاہ رہا ہے۔ تینوں مل کر کفالہ کا معاملہ کر لیں تو یہ عقد ہو جائے گا۔
کفالہ کے عقد کی حقیقت
اسلامی تعلیمات کے روشنی میں ہم عقود کی دو قسمیں کر سکتے ہیں:
ایک وہ جن میں اصل کاروبار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے سے بارگیننگ کرتی ہیں۔ آپس میں عوض کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جیسے خرید و فروخت کے معاملات ہیں۔ یا کرایہ داری کے معاملات ہیں۔
دوسرے وہ معاملات ہیں جن کا مدار باہمی ہمدردی، خیرخواہی، تعاون پر ہے۔ ان معاملات میں صرف اچھی معاشرت اور آخرت کے ثواب کے لیے وہ معاملہ کیا جاتا ہے۔ جیسے قرض اور عاریت کا معاملہ۔
کفالہ کا تعلق دوسری قسم کے معاملے سے ہے۔ یعنی اس کی بنیاد ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون پر ہے۔ لہذا کسی کی ضمانت لینے کی کوئی فیس لینا درست نہیں ہو گا۔ البتہ واقعی کوئی اخراجات اس کفالت پر آتے ہیں تو وہ لیے جا سکتے ہیں۔ جیسے کفیل بننے کی صورت میں کاغذات بنوانے ہیں، اس کے لیے کوئی سفر کرنا ہے تو یہ حقیقی اخراجات لیے جا سکتے ہیں۔ مزید جب مقروض کا قرض ادا کر دیا تو اب اس کا مطالبہ مقروض سے کر سکتا ہے، لیکن الگ سے مزید کسی چارجز کا مطالبہ شرعا درست نہیں ہو گا۔
کفالۃ کا حکم
جب کفالۃ کا عقد صحیح ہو گیا۔ اب قرض دینے والا قرض کا مطالبہ اصل قرض دار اور کفیل دونوں سے کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جب قرض دار نہ دے تو پھر کفیل سے مطالبہ کرے۔
قرض دینے والے نے کفیل سے قرض کا مطالبہ کیا اور اس نے دے دیا۔ جب کفیل نے قرض ادا کر دیا۔ اب یہ ادا کی ہوئی رقم کا اصل مقروض سے مطالبہ کرے گا۔
الحمد للہ! ہم نے علم دین کا ایک سبق سیکھ لیا۔ ان شاء اللہ اس کا اجر اللہ تعالی کے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔ اصل علم وہ ہے جو عمل پر ابھار دے۔ جب علم ہمیں عمل کے بغیر چین سے نہ بیٹھنے دے۔ ہم تھوڑا تھوڑا علم دین حاصل کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ ایک دن پورے دین پر عمل ہو جائے گا۔ یاد رکھیے! منزل تک پہنچنے کے لیے قدم اٹھانا شرط ہے۔ جب تک ہم اپنے آپ کو بدلنے کی نیت نہیں کریں گے۔ عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ہم خود نمونہ بنیں۔ ان شاء اللہ ایک اچھا نمونہ بنیں گے تو جو بھی ہمارے پیچھے آئے گا سب کا ثواب ہمیں بھی ملے گا۔ تو پھر دیر کس چیز کی؟ آج ہم نے کفالت کے بارے میں پڑھا ہے۔ اسے اپنی تجارت کا اس کی روشنی میں جائزہ لیں۔ عملی قدم اٹھائیں۔ اگر ہم ٹھیک ہو گئے تو قرآن کہتا ہے کسی دوسرے کی گمراہی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ پاک ہم سب کو پورے دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔