اسلام عمومی طور پر اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہر کام کو مکمل اور شفاف طریقے سے پورا کیا جائے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ کسی سے مالی معاملہ کرتے وقت نہ صرف اس کو باقاعدہ تحریری(Documented)شکل دے کر اس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کرو،بلکہ یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس پر گواہ بھی قائم کرو ، تاکہ بعد میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ نہ
رہے اور کسی فساد و انتشار کے بغیر زندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں کہ جب مومن بندہ کوئی کام کرے تو اسے اچھے طریقے سے انجام دے ۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام کسی بھی عہدہ اور منصب کو امانت قرار دیتا ہے اور قرآن پاک میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو، چنانچہ ایک حدیث شریف میں اس کو قیامت کی علامات میں سے شمار کیا گیاہے کہ عہدے اور منصب یعنی ذمہ داریاں نا اہل لوگوں کے سپرد کی جائیں۔ علاوہ ازیں اسلام میں مختلف درجات مقرر کرکے ہر چیز کو اس کے درجہ میں رکھنے پربھی زور دیاگیاہے۔ چنانچہ درجہ بندی (categorization)کے اسی اصول پراسلام نے احکام شریعت کی مختلف قسمیں بناتے ہوئے انتہائی ضروری احکام کو فرض و واجب ، اس سے کم درجہ کو سنت اور اس سے کم درجہ کو مستحب قرار دیا ہے۔ اور اس سے بھی کم درجہ کے احکام کو مباح کہاہے۔ جن چیزوں پر پابندی ہے ان کی بھی درجہ بندی ہے،مثلاًانتہائی ممنوعہ چیزوں کو حرام اور اس سے کم درجہ کی چیزوں کو مکروہ قرار دیاگیاہے۔
چودہ سو سال پہلے دی گئیں اسلام کی ان تعلیمات پر اگر نظر ڈالی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ دین اسلام زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے تصورپر مبنی ہے۔ اس تصور کے مطابق ہر کام کے لئے اہل (Competent) باخبر(Aware)اور تربیت یافتہ(Trained)لوگوں کا تقررکرنا اور ہر آدمی کو اپنے دائرہ کار تک ذمہ دار (Responsible) تصورکرنا خود اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امانت و دیانت اورچیک اینڈ بیلنس کا جو نظام اسلام سکھاتا ہے دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔کسی جگہ کسی کی غفلت کی وجہ سے کوئی غلطی ،کوئی کمی کوتاہی ہو جائے تو اس کے ازالے کی کوشش کرنااور اگر ممکن نہ ہو تو اس کو کالعدم اور منسوخ قرار دینا بھی اسلامی تعلیما ت کے مقتضیات میں شامل ہے۔
ان احکامات سے جہاں اسلام کی اعتدال پسندی اور دین فطرت ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، وہاں ان احکامات کی روشنی میں اس حقیقت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی کوالٹی کنٹرول کے معیارات کی طرف راہنمائی فرمادی تھی۔چنانچہ آج اگر ہم کوالٹی اور معیار سے متعلق دنیا میں رائج کسی بھی معیار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو اس میں شق وار تقریبایہی باتیں ملتی ہیں جن کی طرف اوپر کی سطور میں اشارہ ہوا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیامیں کوالٹی کنٹرول کے جتنے معیارات ہم اپنے زمانہ میں دیکھتے ہیں اُن کی تمام اچھی اور بنیادی باتیں اسلام ہی سے ماخوذ ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ مسلمان معاشروں نے اجتماعی طور پر ان معیارات کو نظر انداز کردیا ہے اور دنیا کی دوسری اقوام نے ان ہی معیارات کو خفیہ یا اعلانیہ طور پر اپناکر ترقی کرلی ہے۔
چودہ سو سال پہلے دی گئیں اسلام کی ان تعلیمات پر اگر نظر ڈالی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ دین اسلام زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے تصورپر مبنی ہے۔ اس تصور کے مطابق ہر کام کے لئے اہل (Competent) باخبر(Aware)اور تربیت یافتہ(Trained)لوگوں کا تقررکرنا اور ہر آدمی کو اپنے دائرہ کار تک ذمہ دار (Responsible) تصورکرنا خود اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔
کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر کافر عمل کرے یا مسلمان ، دنیامیں بلا تفریق دونوں کو ایک جیسا نتیجہ ملتا ہے۔ چنانچہ موجودہ دور میں کوئی بھی اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یورپ و مغرب نے مذہبی معاملات و عبادات سے ہٹ کر زندگی کے دوسرے میدانوں میں در پردہ اسلامی تعلیمات کو ہی اپنایا ہوا ہے ، بس اتنی سی بات ہے کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو تحریری صورت میں لا کراسٹینڈرڈز کانام دے دیا ہے۔ اور اس کے لئے باقاعدہ بین الاقوامی ادارے بنادئیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ISOجو ایک بین الاقوامی ادارہ ہے کا ذکر کرسکتے ہیں ، یہ ادارہ جو مختلف چیزوں کے بارے میں ہزاروں اسٹینڈرڈز بنا چکا ہے ،اس کے تیارکردہ معیارات میں سے کوالٹی مینجمنٹ سسٹم (ISO 9001)بھی ایک مقبول و معروف معیار ہے۔
کوالٹی مینجمنٹ سسٹم کا یہ معیار یعنی(ISO 9001)حلال سر ٹیفکیشن کے سلسلے میں اس وقت پوری دنیا میں زیرِ عمل ہے، اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بھی مجموعی طور پر تقریباً انہیں ہدایات پر مشتمل ہے کہ ہر چیز واضح ہو، تحریری صورت میں ہو، اس کا ریکارڈ محفوظ ہو، گاہک کی شرائط کا خیال رکھا جائے۔ ہر آدمی کو اپنی اپنی ذمہ داری معلوم ہو، نیز اس میں یہ بھی ہے کہ اگر شرائط پر عمل نہیں ہوتا تو اس کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے۔ نیزجن شرائط کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ قابلِ رعایت ہیں یا نہیں؟
ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ کوالٹی کنٹرول مینجمنٹ سسٹم حقیقتاً انہیں اسلامی تعلیمات کا ایک نیا نام ہے جو ہم نے بیان کیں۔ اس لئے اس وقت اکثر حضرات کا خیال یہ ہے کہ حلال فوڈ کا کام اگر اعلیٰ معیار کے ساتھ کیا جائے اور اس کے لئے مسلمان بھی اس معیار کو اختیار کر لیں تو یہ ایک اچھی بات ہے،اور شرعی حوالے سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جبکہ بعض دوسرے حضرات کا خیال یہ ہے کہ ان معیارات کو اختیار کرنے میں اسلام کے تصور حلال سے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ ان معیارات میں حلال کی تصدیق کے لئے بعض ایسی انتظامی باتیں بھی شرط کے درجہ میں موجود ہیں جن پر عمل نہ کرنے سے کوئی حلال چیز حرام نہیں ہوتی۔ مگر ہمارے خیال میں یہ تحفظ اس لئے قابلِ غور ہے کہ یہ اندیشہ اس وقت پیدا ہوگا جب کہ ان معیارات کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوکہ اگر کہیں ان معیارات میں درج شرائط پر عمل نہ ہو تواس کی وجہ سے چیز حرام ہو جائے؟ یا اس کو غیر حلال قرار دیا جائے؟ ہمارے خیال میں ان معیارات کو عمومی طور پر اختیار کرنے کا یہ مطلب لینا صحیح نہیں، بلکہ جس طرح شرعی احکام کی تطبیق میں فرق مراتب کے ساتھ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کونسی چیز فرض واجب ہے ؟ کونسی چیز سنت، اور کون سی مستحب؟ اسی طرح ان معیارات پر عمل بھی اگر اس تفصیل کے ساتھ ہو کہ جو مصنوعات ان معاییر میں درج شرعی اور انتظامی ہر طرح کی شرائط کو پورا کریں ان کے حلال ہونے کی تصدیق تو کی جائے مگر اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ جو دوسری مصنوعات شرعی طور پر حلال کی شرائط کو پورا کرتی ہیں،اور ان معیارات میں درج محض انتظامی شرائط کو پورا نہیں کرتیں وہ حرام یا غیر حلال ہیں، تو اس طرح ہمارے خیال میں ان معیارات پر عمل میں کوئی حرج نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ تاثر کی نفی کے لئے یہ طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ مصنوعات کی درجہ بندی کر کے ایسی حلال مصنوعات جو ان اسٹینڈرڈ کے انتظامی معیار پر پوری نہیں اترتیں، مگر حلال کی بنیادی شرعی شرائط کو پورا کرتی ہیں اُن کو حلال سر ٹیفائیڈ اگرچہ نہ کیا جائے، مگر حلال اپروڈ (approved)یا حلال سوٹیبل (suitable) قراردیا جائے، جیساکہ سنہا وغیرہ مسلمانوں کی بعض عالمی تنظیموں نے یہی طریقہ کار اپنایا ہوا ہے، چنانچہ ان کے کال سینٹر سے لوگوں کو ایسے غیر تصدیق شدہ حلال مصنوعات کے بارہ میں ان ہی خطوط پر راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ بات بجا ہے کہ مسلمانوں کو حلال سر ٹیفکیشن میں ان معیار ات کو نافذ کرتے وقت انتہائی احتیاط کرنی چاہیئے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی غیر ضروری شرط کی وجہ سے بے جاتنگی ہو یا کسی ضروری شرط میں چھوٹ کی وجہ سے چوپٹ آزادی ہو۔ بلکہ دونوں طرف توازن (balance)برابررکھنے کی ضرورت ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہمارے خیال میں یہ ضروری ہے کہ حلال سر ٹیفکیشن کا مکمل عمل ایسے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کی نگرانی میں ہو جو مستند مفتیانِ کرام پر مشتمل ہواور کوالٹی مینجمنٹ سسٹم کے بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار بھی ان ہی شریعہ ماہرین کے پاس ہوناچاہئیے ۔ واللہ اعلم