حلال سرٹیفیکیشن کے حوالے سے بعض حضرات اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں حلال سر ٹیفیکیشن کے لیے قائم کئے گئے اداروں کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حلال و حرام جیسا اہم ترین شرعی مسئلہ شرعی علوم سے ناواقف اور غیر ماہر لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے اور دیگر فنی وسائنسی ماہرین کے ساتھ شرعی ماہرین کو شامل نہیں کیا جاتا۔جس کی وجہ سے نہ صرف یہ اہم مسئلہ بلکہ آہستہ آہستہ پورا دینی نظام غیر علما کے ہاتھ میں جانے کا خطرہ ہے جس کے خطرناک نتائج کا تصور ہر آدمی کر سکتا ہے۔
اس خدشے میں کتنی واقعیت ہے؟ اس حوالے سے اتنی بات میں تو شک نہیںکہ عصرِ حاضر میں دوسرے فتنوں سمیت ایک بہت بڑا خطرناک فتنہ یہ بھی ابھرا ہے کہ دینی علوم سے ناواقف اور نابلد لوگ اہم ترین اور حساس ترین دینی موضوعات پر باقاعدہ مباحثہ (Debets) کرتے ہیں، جس کا ہم آئے روز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر مشاہد ہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بعض اوقات لاعملی کی وجہ سے ایسی گفتگو بھی کر جاتے ہیں ، جس سے نعوذ باللہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ ہوتاہے۔
٭…حلال وحرام جیسے نازک دینی فریضے سے متعلق حلال سرٹیفیکیشن نازک اور حساس ترین کام ہے ٭… حلال سرٹیفیکیشن کے اکثر اداروں میں قوت ِفیصلہ اُن کے پاس ہے جو دینی علوم سے کما حقہ واقف نہیں ٭…حلال فاؤنڈیشن نے قلیل عرصے میں اللہ کے فضل وکرم سے بہت کام کیاہے ٭
حلال و حرام جیسے نازک اور اہم ترین دینی فریضہ سے متعلق حلال سرٹیفیکیشن کا کام بھی ایک نازک اور حساس ترین کام ہے، جس میں حلال کی تصدیق کرنے والا ادارہ اس بات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے کہ یہ چیز یقینی طور پر حلال یا حرام ہے حالانکہ بعض اوقات اپنی طرف سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے مختلف قسم کی حلال مصنوعات کو غیر حلال بھی قرار دیا جا رہا ہوتا ہے حالانکہ اہل علم حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سلف صالحین حلال و حرام کے مسئلے میں کتنی احتیاط سے کام لیا کرتے تھے۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں علامہ ابن العربی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب ان سے قرآن و سنت میں مذکور صریح حرام (Clear Haraam) چیزوں کے علاوہ کسی مجتہد فیہ (Debatable) حرام چیز کی حلت و حرمت کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو وہ بجائے حلال یا حرام کے الفاظ کے، پسندیدہ یا ناپسندیدہ کے الفاظ استعمال کرتے تھے، کیونکہ ان کے سامنے وہ آیات و احادیث تھیں جن میں حلال و حرام کے مسائل میں بے احتیاطی پر انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ (احکام القرآن لابن العربی:217/5)
تاہم ایک طرف اگر حلال و حرام کا یہ نازک مسئلہ ہے تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی میدان سمیت زندگی کے ہر شعبے میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں مکمل انقلاب برپا ہوا ہے۔ لوگوں کے معاملات کی رفتار انتہائی تیز ہو چکی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے روایتی ذرائع کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی اور کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے بھی غذائی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں نے دارالافتاؤں میں مطلوبہ سائنسی و فنی معلومات کی کمی کی وجہ سے حلال سرٹیفیکیشن کے اداروں کی طرف رجوع کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن الحمدللہ! شرعی امور کے ماہر، حضرات علما کرام اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہے اور وقت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے تمام تر جدید لوازمات کے ساتھ حلال سرٹیفیکیشن کا کام اپنے ہاتھوں میں لیا۔ جس کی واضح مثال جنوبی افریقہ کا ادارہ SANHA اور سری لنکا کا ادارہ ACJU ہے۔ یہ دو ادارے مکمل طور پر دینی مدارس، بلکہ الحمد للہ! پاکستان کے دینی مدارس کے فضلا کے ہا تھوں میں ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں ان اداروں نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے جن کی صلاحیتوں کا اعتراف دوسرے ممالک میں بھی حکومتی سطحوں پر ہوا ہے۔
پاکستان میں بھی ابتدائی طور پر یہ کام غیر اہل علم حضرات کی طرف سے شروع کیا گیا۔ لیکن جب اس بات کا احساس یا خطرہ ہوا کہ حلال و حرام کا یہ اہم دینی مسئلہ جس سے ہماری زندگی کا پورا نظام کھانا پینا، عبادات، معاشرت، اخلاقیات وغیرہ وابستہ ہیں، غیر ماہر لوگوں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے تو الحمدللہ! پاکستان میں ادارتی سطح پر جامعۃ الرشید نے چند دین دار درد مند حضرات کے متوجہ کرنے پر اس کام میں بھی پہل کی اور دو سال پہلے دارالافتاء سے وابستہ حضرات کو حلال سرٹیفیکیشن کے میدان میں نمایاں غیر ملکی اداروں میں تربیت کے لیے بھیجا۔ وہاں سے واپسی پر حلال فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا جو اس اہم ترین مسئلے میں تمام اہم موضوعات پر پورے ملک کے معتمد اور نامور اہل علم حضرات سے مشاورت میں رہتا ہے۔
حلال فاؤنڈیشن نے قلیل عرصے میں اللہ کے فضل و کرم سے بہت کام کیا، اور اس سلسلے میں مرکزی حکومت کے ان وفاقی اداروں کے ساتھ کام کیا جو حلال و حرام کے حوالہ سے معیارات تیار کرنے (Standardization) کا کام کرتا ہے اور ان وفاقی اداروں کی درخواست پر حلال فاؤنڈیشن نے 17 سال پہلے (1996 ء میں) حلال کے حوالے سے بننے والے معیار میں مختلف فنی، غذائی اور شرعی امور کے ماہرین کے ساتھ مل کر ترامیم و اصلاحات کیں جن کو ان اداروں نے بخوشی قبول و منظور کیا۔
یہ پوری تفصیل عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اہل علم حضرات یہ اہم ترین شرعی مسئلہ اور اس سے وابستہ سرٹیفکیشن کا کام مکمل طور پر شرعی علوم سے ناواقف لوگوں یا اداروں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں خود اہل علم حضرات کو سامنے آنا چاہیے، البتہ اگر دیگر اہم علمی مصروفیات اور تدریسی خدمات یا افرادی و مادی وسائل کی کمی کی وجہ سے عملی طور پر اس کام کا آغاز نہیں کر سکتے تو ان مستند علمی اداروں کی تائید و حمایت ضرور فرمائیں جنہوں نے اپنے محدود وسائل و صلاحیتوں کو اُمتِ مسلمہ کی اس اہم دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔ یہ بات بھی باعث ِ تسلی ہے کہ الحمد للہ! ہمارے اکابر علمائے کرام نے بر صغیر میں اتنا کام کیا ہے کہ حکومتی حلقے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دینی مسائل کے حوالے سے اس خطے کے مسلمان مضبوط اہل علم حضرات کو ہی اتھارٹی مانتے ہیں۔ ہاں البتہ اس کا خطرہ موجود ہے کہ اگر مدارس و مساجد سے وابستہ حضرات اس میدان میں نہیں آئیں گے تو شاید یہ میدان نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔
اس حوالے سے ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں جس طرح دوسرے اسلامی قوانین کا حشر ہوا ہے، اس مسئلے میں بھی خدشہ ہے کہ محض چند سرکاری لوگوں کو بھاری تنخواہوں کے عوض بھرتی کرایا جائے گا اور کام کچھ بھی نہیں ہوگا بلکہ ذاتی و مالی مفادات کی بنیاد پر سر ٹیفیکیٹ جا ری کیے جائیں گے جیسا کہ دوسرے اسلامی امور کے بارے میں سرکاری لوگوں کا حال ہے۔
یہ سوال بھی بہت اہم ہے اور مذکورہ خدشہ اپنی جگہ واقعی موجود ہے لیکن یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی شعبے کے لیے معیارات و قانون بنانا حکومت کا کام ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون اس شعبہ (Field) کے ماہرین طے کرتے ہیں، چونکہ کھانے پینے کی مصنوعات سے متعلق حلال و حرام کے قوانین ہیں۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس میں شریعہ اور غذائی امور کے ماہرین کی رائے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور وہی اس معاملے کے اصل اسٹیک ہولڈر ہیں لہذا یہ بات اشد ضروری ہے کہ حلال و حرام سے متعلق کسی بھی قانون سازی سے پہلے غذائی امور کے ماہرین (Food Scientist) اور مستند مفتیانِ کرام کی رائے حاصل کریں اور اُن کی تجاویز شامل کریں ۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ سرکاری ادارے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پوری دنیا میں وطن عزیز پاکستان کو ایک مسلمہ دینی حیثیت حاصل ہے۔ خدانخواستہ حلال و حرام کے معیارات (Standards) میں شرعی لحاظ سے کوئی خامی رہ گئی تو یہ نہ صرف دنیا میں نقصان کا باعث ہو گابلکہ آخرت میں اس کا وبال انہیں لوگوں پر ہوگا۔
دوسری طرف علمائے کرام پر بھی یہ اہم شرعی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کی ضروریات سے آگاہی حاصل کریں اور اس حوالے سے ہر موڑ پر اپنی خدمات و معاونت پیش کریں ۔ الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حلال و حرام سے متعلق معیارات سازی (Standardization) کے ادارے بالخصوصPSQCA اور PNAC علمائے کرام کے ساتھ نہ صرف رابطے میں رہتے ہیں بلکہ علما ئے کرام کو اپنی میٹنگز میں شرکت کی باقاعدہ دعوت بھی دیتے ہیں اور ان کی تجاویز کو بخوبی قبول کرتے ہیں ۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے معیارات سازی (Standardization) کے ادارے بالخصوص PSQCA اور PNAC مستقبل میں بھی حلال کے حوالے سے قانون سازی علما ئے کرام کی رہنمائی میں کریں گے۔