کسی خون سے حاصل شدہ البیومن اصلاً ناپاک ہے ، لیکن اگر شرعاً اس میں تبدیل ِ ماہیت ثابت ہو جائے تو اس کو پاک اور حلال قرار دیا جائے گاخون سے حاصل شدہ البیومن کو ابھی تک مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیا جا سکا ، کیونکہ اس البیومن کے ساتھ مختلف جان لیوا امراض ہیپاٹائٹس، ایڈز وغیرہ کے جراثیم مریض کے جسم میں داخل ہو

سکتے ہیں البیومن بھی انسانی خون اور مختلف جانوروں کے خوناب وغیرہ سے حاصل ہونے والا ایک مشکوک جزوِ ترکیبی ہے جسے آج کل غذاؤں اور بطورِ خاص دواؤں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی کچھ ضروری تفصیلات درج ذیل ہیں۔کیمیائی لحاظ سے یہ پروٹینز کا ایک مجموعہ ہے جو پانی میں حل پذیر [water-soluble] ہے اورا گر اسے حرارت پہنچائی جائے تو ٹھوس یا نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے۔یہ قدرتی طور پر انڈے کی سفیدی ، دودھ، خوناب [blood serum] نیز متعدد جانوروںاور پودوں کے ریشوں [tissues] اور رطوبتوں [secretions] میں پایا جا تا ہے۔ واضح رہے انڈے کی سفیدی کو بھی البیومن کہا جا تا ہے ، لیکن اس کے ہجے Albumen" "یعنی "e" کے ساتھ ہیں، جبکہ زیرِ بحث البیومن کے ہجے" Albumin " یعنی"i" کے ساتھ ہیں۔ البیومن پلازما [plasma ] کا سب سے اہم پروٹینی جزو ہے۔ اس میں موجود کل پروٹین کا60 فیصد تک اسی پر مشتمل ہوتا ہے۔جبکہ پلازما خون کا بے رنگ رقیق مادہ ہے اور خون کا 55 فیصد پلازما پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔پھر اس کا 90 فیصد پانی پر اور باقی10 فیصددیگر مختلف اجزا پرمشتمل ہوتا ہے جن میں البیومن بھی شامل ہے۔ البیومن کا ایک اہم کام ہارمونز[hormones]، اینزائمز [ enzymes]، فیٹی ایسڈز [acids fatty] اور دواؤں کو مطلوبہ مقام تک پہنچانا ہے۔ تجارتی پیمانے پرالبیومن کے

عمومی مآخذ

تجارتی پیمانے پر البیومِن زیادہ تر درج ذیل ذرائع سے حاصل کیا جا تا ہے:
٭ انسانی خون (اس سے حاصل شدہ البیومن کوعام الفاظ میں ’’ہیومن البیومن‘‘ [Human Albumin]کہتے ہیں)
٭ گائے کاخون (اس سے حاصل شدہ البیومن کو’’ بوائن البیومن‘‘ [Albumin Bovine] کہتے ہیں)
٭ انڈہ ( اس سے حاصل شدہ البیومن کو’’اوول بیومن‘‘ [Ovalbumin] کہتے ہیں)
٭ بعض کمپنیاں اسے کچھ دیگر ذرائع، جیسے خمیر[yeast]، خنزیر، چوہے ، خرگوش اوربھیڑ کے خوناب [serum] سے بھی حاصل کر رہی ہیں۔
٭ ماضی قریب میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چاول (Genetically Modified Rice) بھی البیومن کے ذرائع میں شامل ہو گیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ 2011ء میں چین کی یونیورسٹی Wuhan University، نیویارک (امریکا) کی یونیورسٹی University of Albany کے شعبہ
for Functional Genomics Centre اور کینیڈا کے ایک ادارے National Research Council of Canada کے محققین نے مل کر جینیاتی طورپر تبدیل شدہ چاول سے البیومن تیار کیا، جو ان کے اپنے الفاظ میں اپنے طبعی اور کیمیائی خواص میں بالکل انسانی البیومن کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے اب تک کے نتائج کافی امید افزا ہیں تاہم ابھی اس پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
مذکورہ بالا ذرائع میں سے اگرچہ خمیر اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ چاول البیومن کے حلال ذرائع ہوسکتے ہیں، تاہم اب تک جتنا تحقیقی مواد ہماری نظر سے گزرا ہے اس کے مطابق انسانی خون سے حاصل شدہ البیومن کا استعمال دیگر ذرائع سے زیادہ رہا ہے، کیونکہ اس کا بنیادی مقصد انسانی بیماریوں کاعلاج رہا ہے اور اس کے لیے بنیادی ذریعہ انسانی خون ہی ہے۔ دیگر ذرائع تو بعد میں متبادل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک کسی بھی خون سے حاصل شدہ البیومن کو مکمل طور پر مفید نہیں پایا جا سکا۔
2011ء میں دنیا بھر میں انسانی البیومن کی طلب کا اندازہ 500ٹن سالانہ لگایا گیا۔ اس کا استعمال متعدد مختلف دواؤ ں(بالخصوص ویکسینز اور انجیکشنز)اور تشخیصی معائنوں (Diagonostic tests) میں کیا جاتا ہے۔مختلف اغراض کے لیے تیار شدہ دواؤں میں انسانی البیومن کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔
استعمال

٭ انڈے سے حاصل شدہ البیومن غذائی مصنوعات مثلا ٹافیوں ، کیک، گوشت کی بعض مصنوعات اور بعض ادویہ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔
٭ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ البیومن (Human Albumin) زیادہ تر علاج معالجے میں استعمال ہورہا ہے اور اس کے اہم ترین مقاصد درج ذیل ہیں:
1 شدیدذہنی یا جسمانی چوٹ[trauma] ، جراحی[surgery] ، خون کے ضیاع، زخموں کے علاج اور پلازما کی تبدیلی کے دوران جسم میں زیرِگردش خون کی مطلوبہ مقدار کو بحال کرنا اور اس کو برقرار رکھنا
2 جگر کی خرابی کے سبب پروٹین کی کمی کو دور کرنا
3 سیلانِ دم کے سبب لبلبہ کی سوزش [pancreatitis hemorrhagic] اور پیڑو کی جھلی کی سوزش [peritonitis hemorrhagic] کو ختم کرنا
4 جسم میں زیرِ گردش خون کی مقدار میں شدید کمی [Hypovolemia] کے ہنگامی علاج کے دوران پلازما کی مقدار کو بڑھانا اور دل کی کارکردگی کو برقرار رکھنا
5 گردوں کی بیماری Nephrosis، خون میں پروٹین کی شدید کمی[ Hypoproteinemia ] ،خون میں البیومن کی حد سے بڑھی ہوئی مقدار[Hyperalbuminemia] اور خون میں البیومن کی شدید کمی[Hypoalbuminemia] کا علاج
Hemodialysis 6 یعنی ڈائیالائسس کرکے خون سے فاسد مادوں کو نکالنا اور اس میں ضروری اجزا داخل کرنا


) 2011ء میں دنیا بھر میں انسانی البیومن کی طلب کا اندازہ 500ٹن سالانہ لگایا گیا۔ اس کا استعمال متعدد مختلف دواؤ ں(بالخصوص ویکسینز اور انجیکشنز)اور تشخیصی معائنوں (Diagonostic tests) میں کیا جاتا ہے۔مختلف اغراض کے لیے تیار شدہ دواؤں میں انسانی البیومن کی مقدار مختلف ہوتی ہے


شرعی حکم
مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں البیومن کے شرعی حکم کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
1 مرغی ، بطخ وغیرہ حلال پرندوں کے انڈے سے حاصل کردہ البیومن حلال اور پاک ہے۔
2 کسی خون سے حاصل شدہ البیومن اصلاً ناپاک ہے ، لیکن اگر شرعاً اس میں تبدیل ِ ماہیت ثابت ہو جائے تو اس کو پاک اور حلال قرار دیا جائے گا۔ بادی النظر میں اس میں فنی اور سائنسی طور پر تبدیل ِماہیت کا تحقق نہیں ہوتا، کیونکہ البیومن خون کا ایک جزو ہے اور خون اپنے تمام اجزا سمیت ناپاک ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اس ایک جزو کو دیگر اجزا سے الگ کرلیا جا تا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان اجزا کو اس طرح الگ کرنا بھی کوئی اتنا آسان کام نہیں۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ انقلاب ِ ماہیت کے حوالے سے اس پہلو پر مزید غور فرمائیں اور انقلابِ ماہیت کے تحقق وعدم تحقق کے اصول وضوابط منقح فرمائیں، تاکہ اس طرح کی بہت سی اشیا کا شرعی حکم متعین طور پر معلوم کیا جاسکے۔
3 پھر انسانی جسم کے حوالے سے یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ اس خصوصی تکریم، شرف اور فضیلت کی وجہ سے جو باری تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے، عام حالات میں اس کے کسی بھی جزو یا عضو کا استعمال ، بالخصوص داخلی استعمال جائز نہیں۔ جہاں تک ایک انسان کے خون کو دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنے کا مسئلہ ہے تو چونکہ وہ خارجی استعمال ہے، نیز اس میں ضرورت بھی ہے، اس لیے علمائے کرام نے بوقت ضرورت اس کی گنجائش دی ہے۔
4 اگر ایسا شدید مرض لاحق ہو کہ مریض کی جان جانے کا ڈر ہویا اس کا کوئی عضو بے کار ہونے کا ڈر ہو اور اس وقت اس کا کوئی متبادل دستیاب نہ ہوسکے اور کوئی ماہر دیانتدار ڈاکٹر اس طرح کا ممنوع ذرائع سے ماخوذ البیومن تجویز کرے تو ایسی صورت حال میں اس کو بقدرِ ضرورت استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
5 اگر مصنوع [Product ] پر البیومن درج ہو مگر اس کا پتہ چلانا نا ممکن ہو کہ یہ کس ذریعے سے ماخوذ ہے تو ایسی مصنوع مشتبہ ہے جس کے استعمال سے عام حالات میں بچنا چاہیے ،البتہ مجبوری ہو تو گنجائش ہے۔
مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز
• غذائی اشیا میں یقینی حلال ذرائع سے ماخوذ البیومن ہی استعمال کیا جائے۔ صارفین ان مصنوعات کو تیار کرنے والی کمپنیوں پر واضح کریں کہ اس حوالے سے ہم کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
• ادویہ میں استعمال کے لیے بھی جائز متبادل ذرائع سے البیومن تیار کرنے کے لیے مسلمان ماہرین اب تک کی تحقیقات کو سامنے رکھ کر خود تحقیق کریں۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خون سے حاصل شدہ البیومن کو ابھی تک مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیا جا سکا ( اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اس سے متعلق خطرات میں کمی آئی ہے)، کیونکہ اس البیومن کے ساتھ مختلف جان لیوا امراض، مثلاً: ہیپاٹائٹس، ایڈز وغیرہ کے جراثیم مریض کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ایک تو اس کے استعمال کی اجازت محدود حالات میں دی جاتی ہے اور وہ بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ اور دوسرا یہ کہ اس کے متبادل تلاش کرنے پر کا م ہورہا ہے۔
• اگر کسی شخص کو پروٹین کی کمی سے کوئی شدید اور ہنگامی نوعیت کا مرض لاحق نہ ہوا ہو بلکہ ایسا مرض ہو جس کا علاج ناجائز ذرائع سے ماخوذ البیو من استعمال کیے بغیر بسہولت ممکن ہو تو اس کے لیے ایسی قدرتی غذائیں استعمال کی جائیں جن میں پروٹین کی وافر مقدار پائی جاتی ہو، مثلا: دودھ، مکھن،گوشت، مچھلی، انڈے، اناج اور ٹوفو(tofu)۔ یہ کسٹرڈ کی طرح کی ایک جاپانی غذا ہے جو سویا بین سے تیار کی جاتی ہے۔ پسی ہوئی مونگ پھلی کا ملیدہ [peanut butter]۔ پہلی دار نباتات (جیسے مٹر، مونگ) وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق اگر اپنی کھانے پینے کی عادات کو درست کرتے ہوئے ایسی غذائیں استعمال کی جائیں تو تقریبا تین ہفتوں میں جسم کو پروٹین کی مطلوبہ مقدارحاصل ہوسکتی ہے۔