ایل سسٹئین ایک پروٹینی امینو ایسڈ ہے۔ انسانوں اور دودھ پلانے والے دیگر جانداروں کے جگر میں یہ مختلف غذائی اجزا کی وجہ سے قدرتی طور پر بنتا رہتا ہے۔ اس لیے انسانوں کو عام طور پر اسے الگ سے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن بعض حالات، مثلاً: شیر خوارگی، بڑھاپے اور بیماری وغیرہ میں اسے الگ سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسے ''سیمی اسینشل امینو ایسڈ

(Semi-essential Amino Acid)'' کہا جاتا ہے۔ انڈسٹری میں اسے دیگر ناموں سے بھی ذکر کیا جاتا ہے، جن میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:

E920 ، Beta-mercaptoalanine ، 2-amino-

3-mercaptopropanoic Acid اور

Alpha-amino-beta-thiolpropionic Acid وغیرہ۔ مآخذ((Sources
ایل سسٹئین کے بڑے بڑے مآخذ درج ذیل ہیں:
1 بطخ اور مرغی کے پر
2 انسانوں کے بال
3 خنزیر کے بال اور کھر
4 بیکٹیریا
5 مصنوعی (Synthetic)
'' اجینو مو تو'' مصنوعی ایل سسٹئین کا ایک بڑا مینو فیکچرر ہے۔ اس کمپنی کا بیان ہے کہ اس کی تیاری میں کیمیکلز اور اینزائم استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ اینزائم غیر حیوانی ہوتے ہیں، لیکن اس کا استعمال دیگر ذرائع سے ماخوذ ایل سسٹئین کے مقابلے میں کافی کم ہے، چنانچہ اندازہ یہ ہے کہ مصنوعی طریقے سے اور بیکٹیریا کے ذریعے تیار شدہ ایل سسٹئین اس کی کل مارکیٹ کا صرف 10 فیصد ہے اور اس کی اتنی محدود مارکیٹ کی 2 اہم وجوہات ہیں:
٭ ان ذرائع سے حاصل شدہ ایل سسٹئین مہنگا، جبکہ دیگر ذرائع سے ماخوذ ایل سسٹئین کافی سستا ہوتا ہے۔ ٭ صنعت میںپھیلاؤ کی وجہ سے قدرتی ایل سسٹئین کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ پھر انسانی بالوں سے ایل سسٹئین اخذ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں ایل سسٹئین کی کافی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔
مختلف قدرتی ذرائع، مثلاً بالوں، پروں وغیرہ میں سے کس سے کتنا ایل سسٹئین اخذ کیا جا تا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں ابھی تک قابل ِ اعتماد حتمی اعداد و شمار نہیں مل سکے، البتہ اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے والے اکثر ذرائع کے مطابق اس وقت اس کی سب سے زیادہ مقدار بطخ کے پروں سے حاصل کی جا رہی ہے، نیز انسان اور خنزیر کے بالوں سے اب بھی اس کی اچھی خاصی مقدار تیار کی جارہی ہے، اگرچہ ماضی کے مقابلے میں اس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ چنانچہ ہالینڈ کی Wageningen یونیورسٹی کے زیر انتظام 8 مختلف ممالک کی 9 یونیورسٹیوں۔۔۔۔۔۔ جن میں ترکی کی 2 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔۔۔۔۔۔ کے اشتراک سے چلنے والی ویب سائٹ food-info.net۔۔۔۔۔۔ جو ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق اجزائے ترکیبی پر تحقیق کے حوالے سے نہایت قابل اعتماد ہے۔۔۔۔۔۔ پر ایل سسٹئین کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے: ''E920 جانوروں بشمول خنزیر سے حاصل کیا جا سکتا ہے، لہذا مسلمانوں، یہودیوں، ہندوؤں اور نباتات خوروں (Vegans) کو اس کے استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے۔''
قدرتی ذرائع سے ایل سسٹئین کیسے تیار کی جاسکتی ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے سب سے پہلے خام مال جیسے بالوں، پروں، کھروں وغیرہ کا ''کاپر آکسائیڈ (Copper Oxide) کے ساتھ کیمیائی تعامل کرایا جا تا ہے۔ اس سے ''کاپر سسٹئین کمپلیکس (Copper-Cysteine Complex)'' حاصل ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں مادوں یعنی کاپر اور سسٹئین کو ہائیڈروجن سلفائیڈ (Hydrogen Sulfide) کے ذریعے الگ الگ کرلیا جاتا ہے۔ ماخوذات(Derivatives)
ایل سسٹئین سے مختلف مقاصد کے لیے کچھ دیگر اجزابھی تیار کیے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: N-acetyl Cysteine(NAC) ، L-Cysteine Sulfone، Monohydrate L-Cysteine Hydrochloride ، L-Cysteine Hydrochloride Anhydrous ، L-Cystine اور Dihydrochloride L-Cystine etc. اب اس کے استعمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
٭ ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک اور بعض دیگر بیکری مصنوعات، ذائقہ بڑھانے اور آٹے کو اچھی طرح رچانے کے لیے ٭ غذائی کمی دور کرنے والی مقویات Dietary Supplements) ( ٭ مختلف مصنوعات میں استعمال ہونے والے ذائقے (Flavors)