حرام غذاؤں کے روحانی نقصانات

غذا سے انسان کا تعلق فطری ہے۔ اس لیے یہ تعلق اور رشتہ بہت پرانا بھی ہے اور انتہائی اہم بھی۔ اس تعلق او رشتے کی نوعیت کتنی گہری ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح خاکی پتلے کی صورت میں انسان کے مادی وجود کی بقا کو فطری طور پر غذا کے استعمال پر موقوف رکھا گیا ہے، اسی طرح غذا سے انسان کے روحانی وجود کا بھی بہت مضبوط تعلق ہے۔ چنانچہ جس طرح مادی طور پر اگر انسان اچھی غذا استعمال کرے تو اس کی صحت اچھی رہتی ہے اور اگر خراب اور فاسد غذا استعمال کرے تو اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے،

مزید پڑھیے۔۔۔

فوڈ بزنس اور صفائی کا اہتمام

غذا کو زہریلا بنانے والے بیکٹریا کا سب سے عام ماخذ انسان ہی ہوتے ہیں۔ بیکٹریا ہمارے فضلے، جلد، ناک، تھوک، جسمانی خراشوں اور زخموں وغیرہ میں موجود ہوتے ہیں۔ لوگ بے خبری میں یہ بیکٹریا اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں اور انہیں دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ گندی سطحوں، گندے ہاتھوں، گندے ساز و سامان اور دوسرے کھانوں سے بیکٹریا غذا میں پہنچ سکتے ہیں۔ بیکٹریا فوڈ پوائزننگ یعنی زہریلے مادوں کی وجہ سے غذائی بیماری کا باعث بنتے ہیں جو ایک شدید بیماری ہو سکتی ہے۔ غذا کا کا م کرنے والوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ان کے ہاتھوں سے براہ راست مندرجہ ذیل چیزیں آلودہ ہو سکتی ہے:

مزید پڑھیے۔۔۔

غذا کو محفوظ بنائیے فوڈ بزنس کے رہنما اصول

غذا کا کا م کرنے والے سب لوگوں کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ غذا کو کیسے محفوظ رکھا جا تا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی پوری صلاحیتوں اور مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے غذا کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھیں۔ یہ اصول غذا کا کام کرنے والوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں تاکہ انہیں مندرجہ ذیل معاملات کی بنیاد سمجھ آسکے ۔

مزید پڑھیے۔۔۔

مشتبہ چیز کا اصول

اصول کی وضاحت
مشتبہ اشیا یاصورت حال کے بارے میں شرعی حکم کی تعیین سے متعلق ایک اہم اصول ’’اصل حکم پر عمل‘‘ بھی ہے۔ اس اصول کی وضاحت یہ ہے کہ شریعت نے بعض اشیا میں اباحت اور بعض میں حرمت کو اصل حکم قرار دیا ہے۔ مثلا فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق گوشت میں اصل حکم حرام ہونا ہے۔ جبکہ گوشت کے علاوہ کھانے پینے کی دیگر اشیا میں اصل حکم اباحت یعنی حلال ہونا ہے۔ اسی طرح پانی کے اندر اصل حکم پاک ہونا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

تصور حلال و حرام اصول اور مثالیں

حلال و حرام سے متعلق ایک اصول ’’غلبہ ظن‘‘ کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز یا صورت کے بارے میں حلال یا حرام ہونے کے لحاظ سے اشتباہ ہو، اگر اس چیز کے ظاہری حالات سے اس کی حلت یا حرمت میں سے کسی ایک جانب کا غالب گمان ہوتا ہو تو مبتلابِہٖ شخص کے لیے اپنے غالب گمان کے مطابق فیصلہ کر کے عمل کرنا جائز ہے۔ اس اصول کو پوری وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

مزید پڑھیے۔۔۔

حلال وحرام مباح اور غلبہ ظن کا اصول

اباحت کی دوقسمیں:
مباح چیزوں میں جو اباحت ہوتی ہے ، فقہائے کرام ؒ نے اس کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں : ایک قسم ’’ اباحت اصلیہ ‘‘ ہے جو تمام مباح چیزوں میں اس عام اصول سے ثابت ہوتی ہے کہ شرعی طور پر اشیا میں اصل اباحت ہے ۔ دوسری قسم ’’اباحت شرعیہ ‘‘ یعنی شرعی اباحت ہے جو کسی مباح چیز سے متعلق اس خاص دلیل سے ثابت ہوتی ہے ، جو اس کے بارے میں شریعت میں وارد ہوئی ہوتی ہے۔ لہذا جب حلت وحرمت میں تعارض کے وقت حرمت کی جانب کو ترجیح دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس خاص چیز یا صورت سے متعلق اباحت کی دلیل حرمت کی دلیل سے مقدم قرار دی جاتی ہے اور حرمت کی دلیل کو مؤخر سمجھا جاتا ہے ،

مزید پڑھیے۔۔۔