حضرت تھانوی کے ایک خلیفہ بہت عرصہ بعد آج ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ دن رات ذکر اذکار، کڑی شرائط اور بارہا آزمائش کے بعد خلافت دی گئی تھی۔ دور دراز سے سفر کرکے پہنچے تو ان کے ہمراہ ایک بچہ بھی تھا۔ معانقہ و سلام اور حال احوال ہوئے۔ بچے کو ملوایا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ ویسے ہی پوچھا: بچے کی عمر کتنی ہے؟ عرض کرنے لگے: 13سال۔ حضرت نے پوچھا: آپ نے ریل گاڑی پر سفر کیا۔

بچے کا آدھا ٹکٹ لیا تھا یا پورا؟ کہنے لگے: حضرت آدھا ہی لیا تھا۔ فرمایا: 12سال سے بڑے بچے کا تو پورا ٹکٹ لگتا ہے۔ عرض کرنے لگے: قانون تو یہی ہے مگر یہ بچہ دیکھنے میں تو 12 سال کا ہی لگتا ہے۔ حضرت تھانوی نے فرمایا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کو تو تصوف و سلوک کی ہوا تک نہیں لگی۔ احساس تک نہیں کہ آپ نے حرام کام کیا ہے۔ آپ نے ریلوے کے پیسے غصب کیے ہیں۔ آپ نے قوم کے مال سے چوری کی ہے۔ آج سے خلافت اور اجازتِ بیعت واپس لی جاتی ہے۔


آج بھی بس، ریل اور جہاز میں سامان سفر کی ایک حد مقرر ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ میرا سامان زیادہ تو نہیں؟ ہندوستان میں مشہور ہوگیا تھا کہ ریلوے اسٹیشن پر سامان کا وزن کرانے والا شخص تھانہ بھون ہی جارہا ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کا کھانا، پینا اور پہننا حرام مال سے ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی! آج ہر شخص دوسروں کا حق دبا کر بیٹھا ہے، ہر شخص اس کوشش میں ہے کہ دھونس، دھاندلی یا چالبازی سے مال کمالے۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ حرام مال میرے پیٹ میں جارہا ہے۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمریہ معمول رہا کہ جب کبھی آپ کسی کام سے اپنی اولاد کے کمرے میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو داخل ہونے سے پہلے اجازت لیتے، حالاں کہ وہ کمرہ بیٹوں کی ملکیت نہیں ہوتا تھا۔ انہی کی ملکیت ہوتا تھا، اس کے باوجود کمرے میں جانے سے پہلے اجازت لیتے۔ اگر کبھی انہیں اپنے بیٹوں کی کوئی چیز استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی تو ہمیشہ پہلے پوچھ لیتے کہ یہ تمہاری چیز میں استعمال کرلوں؟

آج لوگ کاروبار کرتے ہیں، بھائی بہن آپس میں لین دین کرتے ہیں، باپ بیٹے کا پیسہ مشترک ہوتا ہے مگر کوئی شخص حساب کتاب نہیں کرتا۔ زندگی میں حساب کتاب دن بہ دن گڈ مڈ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تمام اختلافات، وراثت تقسیم ہوتے وقت شروع ہوتے ہیں۔ پرانے پرانے کھاتے کھلتے ہیں، لمبی چوڑی فہرستیں بنتی ہیں، بات تو تکار سے نکل کر جھگڑے اور رنجش تک پہنچ جاتی ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں: معاشرے کے ان تمام جھگڑوں کی بنیاد حساب کتاب کا صاف نہ ہونا اور معاملات کا واضح نہ ہونا ہے۔ جس کو قرض دیا ہے، اسے پتا ہونا چاہیے کہ میں نے یہ پیسہ واپس کرنا ہے۔ جس کو ہدیہ دیا ہے تو دل کی خوشی سے دینا چاہیے۔ جب تک کوئی شخص رضامند نہ ہو، اس وقت تک اس کا ایک روپیہ لینا بھی حرام ہے۔ ( بحوالہ:معاملات صاف رکھیں)

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا کاروبار تھا۔ ان کا ایک کاروباری پارٹنر بھی تھا۔ جب پارٹنر شپ ختم کرنے لگے تو آپ نے اس کو چار ہزار درہم دیے۔ دوستوں، رفیقوں اور رشتہ داروں نے کہا بھی کہ آپ نے تو اس کی ایک پائی بھی نہیں دینی۔ مگر امام ابن سیرین نے فرمایا: ’’میرے دل میں کھٹکا ہے کہ کہیں اس کے کچھ پیسے میرے پاس تو نہیں آگئے۔ میں اپنے شک کو ختم کرنے کے لیے اتنی بڑی رقم دے رہا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ زریں قول باربار پڑھنا چاہیے: ’’ہم نے نوے فیصد حلال اس ڈر سے چھوڑ دیا کہیں حرام میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ ‘‘ (بحوالہ:موعظۃ المومنین)

حرام کی نحوست ہے کہ آج معاشرے میں ان باتوں کو دیوانے کی بڑ کہا جاتا ہے۔ حرام اور حلال کا تصور دن بہ دن ختم ہوتا جارہا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کو چالاکی، سمجھداری اور عقل مندی سمجھا جاتا ہے۔ شرافت، امانت اور دیانت کو بے وقوفی، سادہ لوحی اور نالائقی کہاجانے لگا ہے۔