عبداللطیف بھٹائی نے تھر کے بارے میں کہا تھا: ’’اے ساون کے بادلو! کبھی ہمارا حال بھی پوچھ لو۔‘‘ بھٹائی کے دور میں تو صرف تھر ہی آٹھ آٹھ آنسو روتا تھا، اب تو وطن عزیز کا ہر ہر گوشہ دہائی دے رہا ہے۔ ہر دوسرے سال تھر کے تن بدن سے سسکیاں بلند ہوتی ہیں۔ ایک ایک دن میں دوسو معصوم نونہال خون آشام بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ وزیر خزانہ تسلیم کرتے ہیں کہ 54 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

کوئی دن جاتا ہے جب پنکھے سے جھولنے، دریا و نہر میں کودنے یا ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی خبر نہ آئی ہو۔ رفتہ رفتہ جینا مشکل اور مرنا آسان ہوتا جارہا ہے۔ معذوروں کی تعداد مرنے والوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد ناروے یا نیوزی لینڈ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔؟؟؟ حیدر آباد، ملتان اور پشاور کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ لوگ معذور ہیں۔ پاکستان دنیا کا نرالا ملک ہے جہاں کروڑ پتی افراد کی تعداد 36 ہزار ہے مگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ غریب لوگوں کی تعداد 10 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ امیر شہر کے اکائونٹ میں دولت کے انبار لگتے جارہے اور غریبوں کی لاشوں سے قبرستان بھرے جاتے ہیں۔


اس بحث کو چھوڑیے کہ غربت کا ذمہ دار کون ہے؟ غربت ختم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کون مجرم ہے اور کس کا جرم بڑا ہے؟ آئیے! ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی ایک شخص حاضر ہوا۔ ناداری، بے کسی اور غریبی نے اسے تباہ حال کر رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہدیہ یا عطیہ نہیں دیا۔ فرمایا: کوئی چیز ہے تو لے کر آئو؟ وہ گھر واپس گیا۔ ایک پیالہ اور ٹاٹ لیے واپس لوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں چیزوں کو دو درہم میں فروخت کردیا۔ پھر اس صحابی کو حکم دیا کہ ایک درہم سے اہل خانہ کے لیے کھانا خریدو۔ دوسرے درہم سے کلہاڑی خریدو، جنگل میں جائو اور لکڑی کاٹ کر فروخت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے کلہاڑی میں دستہ لگایا۔ فرمایا: اب پندرہ دن بعد واپس آنا۔ پندرہ دن بعد وہ صحابی واپس تشریف لائے تو عرض گزار ہوئے: اللہ نے میری زندگی برکتوں سے بھر دی ہے۔ (سنن کبری للبیہقی، رقم: 12846)

اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب کی ضرورت پوری کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ پھیلے ہوئے ہاتھ کو خالی واپس نہ جانے دینا سنتِ نبوی ہے۔ غربت مٹانے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دینا اخلاق اور ایمان کا تقاضا ہے۔ مگر اس کا دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ایک بار غریب کو کھانا کھلانا اچھا ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی ضرورت پوری کردینا بہتر ہے؟ اسے ہمیشہ کے لیے بھکاری رہنے دینا درست ہے یا خود کفیل بنا دینا صحیح ہے؟ ایک بار پیٹ بھردینا کافی ہے یا ہمیشہ کے لیے برسرروزگار بنا دینا بہتر ہے؟ سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ فقیر کو چند پیسے دینا بھی نیکی ہے مگر اس سے بڑی نیکی ہمیشہ کے لیے اس کی غربت ختم کردینا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دوسرے طریقے کو اختیار فرمایا۔ غریب کی صرف ضرورت پوری نہیں کی، اسے برسر روزگار کردیا اور ہمیشہ کے لیے مانگنے سے بچالیا۔ آج یہ طریقہ پوری دنیا میں مقبول ہورہا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں، افریقہ کے غربت زدہ ممالک میں بھی اسی طریقے کو اختیار کیا جارہا ہے۔ معاشی ماہرین اسے ’’مائیکروفائنانس‘‘ کا نام دیتے ہیں مگر صرف نام ہی بدلا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اسلامی مائیکروفائنانس کو اختیار کیا جارہا ہے۔ 2007ء میں صرف 19 اسلامی ممالک میں ایک سروے سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ تقریبا چار لاکھ افراد اسلامی مائیکروفائنانس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر آج صرف پاکستان میں اسلامی مائیکروفائنانس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد ہی چار لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔ آپ ایک تاجر ہیں، آپ پر اللہ تعالی نے کرم فرمایا ہے۔ آپ غریبوں کی مدد بھی کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار چند روپے دینے کے بجائے مائیکرو فائنانس کا طریقہ کیوں نہیں اپناتے؟