صحابہ کرامؓ کی محفل سجی تھی۔ آسمان کے ستارے زمیں پر اتر آئے تھے۔ شاید اس لمحے زمین بھی اپنی قسمت پر رشک کررہی ہوگی۔ ہرشخص اپنے من کی بات زباں پر لارہا تھا۔ اتنے میں گفتگو چل نکلی کہ لشکر اسلام کو کیا کرنا چاہیے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں ایسا کرلیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مشورہ تو بالکل غلط ہے۔ یہ بات سنتے ہی حضرت ابوذر کی زبان سے نکلا: اے کالی ماں کے بیٹے! تم بھی میری بات کو غلط کہہ رہے ہو؟


یہ الفاظ تھے کہ تازیانہ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ان کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ حیران وپریشان، دل گرفتہ و پژمردہ وہ آگے بڑھے۔ قلب پریشاں، دل حیراں اور چشم گریاں کی تسکیں کا ساماں تو وہی فخر کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ درِ رسول پر حاضر ہوئے۔ دکھڑا کہہ سنایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سرور کونین نے سنا تو رنجیدہ ہوگئے۔ اتنی دیر میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بھی افتاں و خیزاں وہاں پہنچ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے بلال کو طعنہ دیا ہے۔ تم سے جاہلیت کی رمق ابھی تک نہیں گئی۔‘‘ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ پر تو گویا بجلی گر گئی ہو۔ آنکھوں سے رم جھم برسات شروع ہوگئی۔ مسجد سے نکلے تو آنکھوں کے جھرنے بہہ رہے تھے۔ دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تشریف لا رہے ہیں۔ زمین پر لیٹ گئے۔ رخساروں کو مٹی پر رکھ دیا۔ ’’بلال! قسم بخدا! جب تک میرے چہرے پر پائوں پر نہیں رکھوگے، یہ مٹی میں رلتے رہیں گے۔ آپ باعزت اور میں بے عزت ہوں۔‘‘ حضرت بلالؓ کی سسکی نکل گئی۔ یکایک بیٹھے۔ حضرت ابوذر کو اٹھایا اور گلے لگالیا۔ (ابن بطال، شرح الصحیح البخاری:1/87)

یہ ایک قصہ نہیں، ہزار پہلو داستان ہے۔ کانفلیکٹ مینجمنٹ (Conflict Management)کی تمام تر سائنس اس میں چھپی ہے۔ مگر اس کی تفصیل سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ جھگڑا کتنے مراحل سے گزرتا ہے؟ اور اس کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں گے کہ صحابہ کرام کا طرز عمل ہماری کس طرح رہنمائی کرسکتا ہے۔

جھگڑے کے مراحل
آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں جھگڑا ایک دم نہیں ہوتا۔ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں‘‘، پھر ایک دن جھگڑا ہوتا ہے اور برسوں کا یارانہ دائو پر لگ جاتا ہے۔ جھگڑے کے اہم مراحل یہ ہیں:
شک
سب سے پہلے شیطان آپ کے دل میں بدگمانی اور بدظنی کے کانٹے اگائے گا۔ وسوسے اور خدشے پیدا ہوتے ہیں اور بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ شک سے حسد پیدا ہوتا ہے اور کینہ پنپنا شروع ہوجاتا ہے۔

غیبت
حسد اور کینہ اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردیتا ہے۔ غیبت شروع ہوجاتی ہے۔ موقع ملتے ہی اس کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں۔ لڑائی اور جھگڑے کی بنیاد مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔

لڑائی
جیسے ہی دوسرے شخص کو پتہ چلتا ہے تووہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام و دشنام شروع جاتا ہے۔ لڑائی اور ہاتھا پائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔

قطع تعلقی
اب آخری اور سب سے خطرناک مرحلہ شروع جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے بول چال ختم۔ آنا جانا بھی بند۔ دوسرے کو آتا دیکھ کر راستہ بدل لیا جاتا ہے۔ جب کہ ایسے شخص کی بخشش لیلۃ القدر میں بھی نہیں ہوتی۔ عید کے دن اللہ کی رحمت عام ہوتی ہے مگر قطع تعلقی کرنے والا بخشش سے محروم رہ جاتا ہے۔

جھگڑے کی وجوہات
جب بھی لوگ مل جل کر رہتے ہیں، ان میں اختلافات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہر شخص کی فطرت دوسرے سے علیحدہ پیدا کی ہے، ہر شخص کا مزاج بھی دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے جھگڑے پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ جھگڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں:

مل جول
جہاں بھی زیادہ ملنا جلنا ہوگا وہاں جھگڑے پیدا ہوں گے۔ گھر، دفتر اور بازار میں اسی لیے جھگڑے ہوتے ہیں مگر جہاز، ٹرین یا بس میں جھگڑے نہیں ہوتے۔ اس لیے ہر شخص کے ساتھ تعلقات کی حدود متعین ہونی چاہییں۔ اپنی ذاتی زندگی کو دوسروں سے جدا رکھنا چاہیے۔
توقعات
جھگڑوں کا سب سے بڑا سبب توقعات ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا تو دل میں بدگمانی پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسروں سے توقعات وابستہ کرنے کا نقصان ہی نقصان ہے۔ اگر آپ نے کسی سے تعریف کی توقع وابستہ کرلی مگر اس نے تعریف نہ کی تو یقینا دل میں غصہ بھر جائے گا۔ اسی طرح کسی سے یہ امید کرنا کہ وہ میرے بارے یہ لفظ کہے گا، اگر اس نے وہ لفظ نہ کہے تو اختلافات پیدا ہوجائیں گے۔ ایک مسلمان کی تمام تر توقعات کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے۔

سوچ
آپ جس انداز سے سوچتے ہیں، دنیا کا کوئی شخص اس انداز سے نہیں سوچ سکتا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں سے کبھی کبھی آپ کی سوچ مل جائے مگر اکثر ایسا نہیں ہوگا۔ اس لیے اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ ہر شخص حالات کو اپنی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایک ہی چیز آپ کے لیے سخاوت ہوسکتی ہے مگر آپ کے باس کے لیے فضول خرچی۔

رواج
دفتر میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ ہر شخص آپ کے رسم و رواج کو مانے۔ یاد رکھیے! جس طرح آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے رسم ورواج پر عمل کریں ایسے ہی کسی دوسرے شخص کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے رواج پر عمل کرے۔

بے احتیاطی
معاشرے میں ہر شخص اپنے حقوق حاصل کرنے بلکہ چھیننے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے، مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ دوسروں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ میری عزت کریں مگر خود کسی کی عزت نہیں کرتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگ میرے مزاج کو سمجھیں مگر خود دوسروں کا مزاج سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اس لیے لڑائیاں اور جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

خلاصہ
اب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر غور کریں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ اک ذرا سی بات پر جھگڑا بڑھ گیا۔ دوسروں پر اپنی سوچ مسلط کرنے کا انجام بہت خطرناک نکلا۔ مگر اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ اگر لڑائی ختم کرنی ہے تو اپنی غلطی تسلیم کرنا ہوگی۔ اپنی انا اور تکبر کو معافی مانگنے کے رستے میں حائل نہیں کرنا چاہیے۔ (دروس شیخ عائض القرنی وگھریلو جھگڑوں سے نجات، پیر ذوالفقار احمد نقشبندی،مکتبۃ الفقیر، صفحہ نمبر 61)