واٹس ایپ کی کہانی حیرت انگیز بھی ہے اور انکشاف خیز بھی۔ اس کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب وہ اور اس کی غربت زدہ ماں لقمے لقمے کو ترستے تھے۔ اس کی ماں لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور جان کوم دن بھر گھر گھر صفائی کرتا۔ کبھی پھلوں کی ریڑھی لگاتا اور کبھی مزدوری شروع کردیتا۔ عمر اٹھارہ سال ہوئی تو وہ اس زندگی سے تنگ آگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک پروگرامر بننا ہے۔ وہ ایک یونیورسٹی میں جانے لگا۔ محنت مزدوری سے گزر بسر کرتا اور یونیورسٹی کی فیس ادا کرتا۔

اس کی محنت رنگ لائی اور اسے ’’یاہو‘‘ میں ملازمت مل گئی۔ دفتر میں اس کی ملاقات برائن ایکٹن سے ہوئی۔ وہ نوسال تک یہاں کام کرتا رہا۔ مگر دفتر، کام اور ماحول سے افسردہ ہوکر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس آگیا۔

دونوں دوست اب بے روزگار تھے۔ وہ ’’فیس بک‘‘ میں گئے اور نوکری کی درخواست دی۔ انہیں مسترد کردیا گیا۔ اب وہ ایک بار پھر سڑکوں پر تھے۔ ایک بار پھر محتاجی، غریبی اور بے کسی نے گھیر لیا۔ کبھی کھانا خریدنے کے پیسے بھی نہ ہوتے۔ جان کوم نے ایک خیراتی مرکز میں کھانا شروع کردیا۔ ایک دن اپنے دوست سے بات چیت کے دوران اس کے ذہن میں واٹس ایپ کا آئیڈیا آیا۔ کوم نے گھر جاکر اس خیال پر کام شروع کردیا۔ 24 فروری 2009ء کو جان کوم نے واٹس ایپ لانچ کردی۔ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اسے حیرت انگیز مقبولیت ملے گی۔

واٹس ایپ ہر جگہ چھاتی چلی گئی۔ صرف پانچ سال میں دنیا کے ہرہر کونے میں واٹس ایپ پہنچ گئی۔ جی ہاں! صرف پانچ سال میں اس سافٹ ویئر کی قیمت 19 ارب ڈالر تک جاپہنچی۔ وہی فیس بک جس نے کبھی جان کوم کو اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دیا تھا، اسی نے واٹس ایپ کو خریدلیا۔ وہ خیراتی مرکز جہاںجان کوم جاکر کھانا کھاتا تھا، وہیں پر فیس بک کا مالک مارک زکر برگ اور جان کوم اکٹھے ہوئے۔ دونوںنے اسی جگہ پر معاہدہ لکھا۔ صرف پانچ سال بعد جان کوم ارب پتی بن چکا تھا۔ آج دنیا بھر میں موجود 60 کروڑ سے زائد افراد اسے استعمال کررہے ہیں۔ روزانہ دس لاکھ نئے افراد واٹس ایپ کو استعمال کرنا شروع کررہے ہیں۔

آپ آئی ٹی کی تیزی، پھرتی اور وسعت کا اندازہ لگائیں۔ صرف پانچ سال میں اس سافٹ ویئر کی قیمت 19 ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔ آئی ٹی کی دنیا جادوئی کرشموں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں جو محنت کرتا ہے وہ فیس بک، ٹویٹر، آئی فون، مائیکروسافٹ اور کیو موبائل تک جاپہنچتا ہے۔ سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے۔

ٹیکنالوجی میں ایک قانون ہے جسے مورسے لا کہا جاتاہے۔ morse law کے مطابق صرف 18 مہینے میں ٹیکنالوجی کی قیمت آدھی اور اس کی رفتار دوگنا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں متعارف ہونے والی ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتی جارہی ہے۔ جو موبائل اور کمپیوٹر آج کوڑیوں کے بھائو بک رہے رہیں وہ کبھی ہزاروں اور لاکھوں روپے میں بھی دستیاب نہ تھے۔جو سافٹ ویئر آج مفت ڈائون لوڈ کیے جارہے ہیں کبھی ان کی قیمت کروڑوں میں تھی۔ مگر یقین کریں کہ سافٹ ویئر کے مفت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے مالکان خسارے میں جارہے ہیں۔ آپ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر کمپنیوں کے بارے میں معلوم کریں یہ لوگ دنیا کے امیر ترین افراد ہیں۔

جاپان کی اسٹاک ایکسچینج میںپہلے نمبروں پر موجودتمام بڑی کمپنیاں اب آئی ٹی بزنس میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ تیل صاف کرنے والی اور معدنیات نکالنے والی وہ کمپنیاں جن کا بجٹ سن کر ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں، وہ کمپنیاں اب آئی ٹی میں سرمایہ کاری کا آغاز کرچکی ہیں۔ ’’امپیریل ریسورسز‘‘ اور’’ سائوتھ سیز ریسورسز‘‘ نامی دو بڑی کمپنیاں حال ہی میں آئی ٹی کی دنیا میں داخل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار وہ کمپنیاں جو اسٹاک ایکسچینج میں سرفہرست ہیں، جن کے شیئرز کی دنیا بھر میں مانگ ہے، وہ اب آئی ٹی میں سرمایہ کاری کے لیے پرتول رہی ہیں۔

آپ ایک بزنس مین ہیں۔ اپنے موجودہ کاروبار کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کے میدان میں بھی ضرور قسمت آزمائی کریں۔ آئی ٹی سے صرف آپ کا کاروبار ہی نہیں چمکے گا، بلکہ تحقیق اور ترقی کی ایک نئی دنیا آباد ہوگی۔