اسپین میں ٹرین بم دھماکوں نے پورے ملک کو بھونچکا دیا۔ ہر شخص ہکا بکا اور حیران و پریشان ہوگیا۔ دھماکوں میں 191افراد ہلاک ہوئے۔ ملک بھر میں غم و غصے اور حسرت و افسوس کی لہر دوڑ گئی۔ تحقیقات آگے بڑھیں تو پتا چلا کہ حملوں میں مسلمان ملوث ہیں۔ مسلمانوں کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے سرعام مسلمانوں پر حملے شروع کردیے۔ ’’مینول کیبرول‘‘ اسپین کا مشہور بزنس مین تھا۔

وہ مختلف ممالک سے گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس منگواتا اور ملک بھر میں بیچ دیتا تھا۔ اس نے بھی فیصلہ کیا کہ کسی مسلمان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا۔ مگر کاروبار ایسی مجبوری ہے جس کی خاطر سارے عہد و پیمان توڑنے پڑتے ہیں۔ اسے ایک مسلمان جہاز راں سے ملنا تھا۔

مینول نے اس مسلمان کو پیرس کے ایک ہوٹل میں بلایا۔ مینول اور محمد کی میٹنگ شروع ہوئی اور کاروباری گفتگو طویل ہوتی گئی۔ اچانک مینول کو کال آئی کہ آپ کا قریبی دوست زخمی ہوکر ہسپتال میں داخل ہے۔ مینول نے محمد سے معذرت کی اور افراتفری میں ہسپتال پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ جلدی میں وہ اپنا یورو سے بھرا بریف کیس چھوڑ آیا ہے۔ مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ بریف کیس میں رکھے پانچ کروڑ روپے باربار اس کی نظروں کے سامنے گھوم جاتے۔ محمد کا براہ راست نمبر بھی نہیں تھا اور فوری طور پر واپس پہنچنا بھی ناممکن۔ مینول سات گھنٹے بعد ہوٹل واپس پہنچا تو پیسوں سے مایوس ہوچکا تھا۔ مگر جب ہوٹل میں داخل ہوا تو اپنے سامنے محمد کو کھڑا پایا۔ محمد نے اس کا پرتپاک استقبال کیا اور کہا: یہ رہی آپ کی امانت۔ مینول نے حیرت سے پوچھا: نوجوان! تم نے یہ پیسے چرائے کیوں نہیں؟ اتنی دولت اپنے سامنے دیکھ کر تمہارا دل کیوں نہیں للچایا؟ مگر محمد کا جواب تھا: ’’میرا دین اسلام مجھے بے ایمانی اور بددیانتی سے منع کرتا ہے۔‘‘ مینول کیبرول کے دل میں تجسس انگڑائیاں لینے لگا۔ مینول اسلام کے بارے میں سوالات پوچھتا گیا اور حیرت کے سمندر میں ڈوبتا رہا۔ اگلے دن محمد نے اسے مترجم قرآن مجید کا نسخہ دیا۔ مینول کیبرول نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھتے ہی اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی تقریر کی تو ایک بات ضرور فرمائی کہ جس شخص جس شخص میں امانت داری نہیں ہے، اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘ (مسند احمد، رقم: 12410) دوکان کے مالک کا حکم تھا کہ کپڑے میں خرابی ہو تو بتا کر بیچنا۔ ایک یہودی دوکان پر آیا۔ ملازمین نے یہودی سمجھ کرعیب دار کپڑا مہنگے داموں بیچ ڈالا۔ مالک پہنچا تو ماجرا دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ یہودی کی تلاش میں چل نکلا۔ یہودی ایک تجارتی قافلے میں آگے آگے اور مسلمان تاجر اس کے پیچھے۔ تین دن بعد قافلہ ملا۔ یہودی سے کہا: میرے ملازموں نے زیادہ پیسے اینٹھ لیے۔ یہ اپنے درہم واپس لے لو۔ یہودی گویا ہوا: تم نے اتنی تکلیف کیوں کی؟ جواب ملا: اسلام ہمیں ملاوٹ اور بے ایمانی سے منع کرتا ہے۔ یہودی کہنے لگا: میرے درہم کھوٹے تھے۔ یہ لو نئے درہم اور سنو میں مسلمان ہوتا ہوں۔ جس کے اعمال بولنے لگے اسے زیادہ الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

ہمارے ایک دوست نے اٹلی کے ایک یہودی تاجر کو کپڑا ایکسپورٹ کیا۔ کچھ دن بعد اٹلی جانا ہوا تو یہودی تاجر نے گن کر قیمت دے دی۔ پاکستان واپس پہنچے تو یہودی کے دیے پیسے گننا شروع کیے۔ پیسے گنے تو زیادہ نکلے۔ دوبارہ اور سہ بارہ گنتی میں تصدیق ہوگئی کہ یہودی جلدی میں اپنا نقصان کر بیٹھا ہے۔ انہوں نے اپنے پیسے علیحدہ کیے، یہودی کے پیسوں پر ربڑ بینڈ چڑھا کر رکھ دیا۔ دو ماہ بعد اٹلی جانا ہوا۔ اسی یہودی کو ایک ہوٹل میں بزنس میٹنگ پر بلایا۔ اس کے پیسے نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیے کہ آپ سے غلطی ہوئی۔ یہودی ہونق بنا ٹک ٹک دیکھنے لگا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اگلے دن یہودی نے اپنے گھر بلایا۔ اپنے خاندان کو جمع کیا اور مسلمان کا عظیم کارنامہ ان سب کو بتا یا۔ آج اٹلی کی کپڑا مارکیٹ میں 70 فیصد شیئرز اسی پاکستانی تاجر کے ہیں۔ سچ ہے عمل سے جو تبلیغ ہوتی ہے وہ لاکھوں کتابوں سے بھی نہیں ہوسکتی۔