جدید ٹیکنالوجی استعمال کیجیے!

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کو دنیا بھر میں معلومات کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس انسائیکلوپیڈیا کو لکھنے میں ڈھائی سوسال کا عرصہ لگا۔ روزانہ کم ازکم سو محقیقین بیٹھتے اور دنیا بھر کی معلومات لکھنا شروع کردیتے۔ اب تک اسے لکھنے والے افراد کی تعداد چار ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ ان مصنفین میں سے 110 افراد ایسے بھی ہیں جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ڈھائی سوسال میں اربوں ڈالر اس منصوبے پر خرچ ہوئے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

میوچل فنڈ میں سرمایہ کاری

مضاربہ اسکینڈل نے نجانے کتنے گھروں کو ماتم کدہ بنا دیا۔ لاکھوں لوگ آج بھی دن پھرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ سیکڑوں گھرانے آج بھی امیدوں، آسروں اور افواہوں کے کچے دھاگے سے بندھے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا صبر اور شکر ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔ مگر مضاربہ اسکینڈل نے معاشرے کی ایک دوسری بڑی کمزوری کو آشکار کردیا ہے۔ پورا پاکستانی معاشرہ چھوٹی چھوٹی بچتیں جمع کرتا ہے۔ پھر سرمایہ کاری کے بااعتماد اور جائز ذرائع تلاش کرتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

کاروباری جھگڑے یوں ختم کریں

صحابہ کرامؓ کی محفل سجی تھی۔ آسمان کے ستارے زمیں پر اتر آئے تھے۔ شاید اس لمحے زمین بھی اپنی قسمت پر رشک کررہی ہوگی۔ ہرشخص اپنے من کی بات زباں پر لارہا تھا۔ اتنے میں گفتگو چل نکلی کہ لشکر اسلام کو کیا کرنا چاہیے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں ایسا کرلیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مشورہ تو بالکل غلط ہے۔ یہ بات سنتے ہی حضرت ابوذر کی زبان سے نکلا: اے کالی ماں کے بیٹے! تم بھی میری بات کو غلط کہہ رہے ہو؟

مزید پڑھیے۔۔۔

قرضِ حسن اور مائیکروفائنانس

اس نے اپنی جیب سے 27 ڈالر کا قرض دیا۔ 1976 ء کا تباہ حال، بدحال اور خستہ حال بنگلہ دیش۔ یہ رقم گائوں کی 42خواتین کو دی گئی۔ یہ عورتیں چند مقامی سود خوروں کے جال میں پھنس گئی تھیں۔ دیہاتی عورتوں نے اس تھوڑی سی رقم سے کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالی نے نوے فیصد رزق تجارت میں رکھا ہے۔ خواتین نے نفع کمایا۔ اپنے خاندان کو پائوں پر کھڑا کیا۔ قرض کی رقم واپس کردی۔

مزید پڑھیے۔۔۔

بہنوں کو بے نقاب نہ کیجیے

اس کے گھر پر قیامت سے پہلے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ والد صاحب کا انتقال ان کے گھرانے کو سوگوار کرگیا۔ اپنے پیچھے روتی سسکتی بیوہ اور تڑپتی بلکتی بیٹی کو چھوڑ گئے۔ اے موت تجھے موت ہی آئی ہوتی! مدیحہ تو ابھی ایم بی اے کی طالبہ تھی۔ بوڑھی ماں عمر کے اس حصے میں ہے جہاں سہاروںاور آسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایم بی اے کی فیس کہاں سے ادا ہوگی؟ باپ کے جمع کردہ پیسے سے کب تک گزارہ ہوگا؟ بچپن سے پردہ کرنے کی عادت کہیں نوکری بھی نہیں کرنے دیتی۔

مزید پڑھیے۔۔۔

اسلامی مائیکروفائنانس

عبداللطیف بھٹائی نے تھر کے بارے میں کہا تھا: ’’اے ساون کے بادلو! کبھی ہمارا حال بھی پوچھ لو۔‘‘ بھٹائی کے دور میں تو صرف تھر ہی آٹھ آٹھ آنسو روتا تھا، اب تو وطن عزیز کا ہر ہر گوشہ دہائی دے رہا ہے۔ ہر دوسرے سال تھر کے تن بدن سے سسکیاں بلند ہوتی ہیں۔ ایک ایک دن میں دوسو معصوم نونہال خون آشام بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ وزیر خزانہ تسلیم کرتے ہیں کہ 54 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔