ایڈورٹائزنگ کا دوسرا رخ

عراق پر ایٹمی ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ برطانوی وزیر اعظم نے عراق میں تبدیلی کا راگ الاپنا شروع کیا، امریکا نے پنجے جھاڑے اور اقوام متحدہ نے کارروائی کی منظوری دیدی۔ اتحادی اکٹھے ہوئے اور عراق پر چڑھ دوڑے۔ امریکی صدر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ قوم کو اربوں ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ نے اجازت دے دی۔ مگر اسی امریکی کانگریس کے سامنے صحت، تعلیم اور عوامی بہبود کا بجٹ آیا تو اس میں کٹوتی کر دی۔ کہا گیا خزانہ ان شعبوں پر سرمایہ کاری برداشت نہیں کر سکتا۔

مزید پڑھیے۔۔۔

ایک فیصد لوگوں کی حکمرانی

ایڈم اسمتھ کو جدید معاشیات کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ آج دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں اسکاٹش ماہر معیشت کا فلسفہ پڑھایا جاتا ہے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ اس نے کہا تھا: ’’لوگوں کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم ایک خفیہ اور نادیدہ ہاتھ سرانجام دیتا ہے جو مالک اور ملازم کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے اور ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق رزق مل جاتا ہے۔‘‘ (The Theory of Moral Sentiments)

مزید پڑھیے۔۔۔

چند کمپنیوں کی اجارہ داری

ایک تاجر دوست بتا رہے تھے کہ ہمارے شہر میں انڈوں کے کارباور پر ایک خاندان قابض ہے۔ اس خاندان کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی شخص انڈوں کا کام شروع نہیں کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص آکر انڈے کا کاروبار شروع کرتا ہے تو یہ خاندان فوراً اپنے انڈوں کی قیمتیں اس حد تک گرادیتا ہے کہ نیا کاروبار ضرور ٹھپ ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

حلال اور حرام کا فرق

پچاس لاکھ کی لاٹری کیا نکلی، شب و روز ہی بدل گئے۔ پیسہ جیب میں آیا تو عمربھر کے ارمان پورے کرنا شروع کردیے۔ اللے تللے شروع ہوگئے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ بڑے شہر منتقل ہوجائو، وہاں کاروبار شروع کردو۔ لاہور میں جاکر قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا۔ حرام کا پیسہ جیب میں آتے ہی عقل و خرد رخصت ہوجاتی ہے۔ جو قدم اٹھایا، غلط اٹھایا۔ جس کاروبار میں ہاتھ ڈالا، نقصان کرڈالا۔ حرام کی نحوست نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا تھا۔ دولت بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکلتی گئی۔

مزید پڑھیے۔۔۔

بزنس ’’اسٹارٹ اپ‘‘ کی حیرت انگیز دنیا

اگر آپ بزنس اسٹارٹ اپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ’’برین مارگن‘‘ کی زندگی پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ اس کی پیدائش امریکا میں ہوئی تھی۔ مگر قسمت نے اسے ملازم بنا دیا۔ دفتری ملازم کی طرح ہی ہر لمحہ اچھی تنخواہ کی فکر، اچھی کمپنی کی تلاش اور زندگی سے ہر لمحہ نبرد آزما۔ اپنے گھر سے بہت دور جنوبی امریکا کے ملک ایکواڈور میں ملازمت کرتا تھا۔ پردیس کی زندگی سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ گھر واپس آ بیٹھا۔ روزانہ صبح سویرے اٹھتا۔ اپنی فائلیں سمیٹتا اور دفتروں کے چکر لگانا شروع کر دیتا۔

مزید پڑھیے۔۔۔

آئی ٹی کی جادوئی دنیا

واٹس ایپ کی کہانی حیرت انگیز بھی ہے اور انکشاف خیز بھی۔ اس کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب وہ اور اس کی غربت زدہ ماں لقمے لقمے کو ترستے تھے۔ اس کی ماں لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور جان کوم دن بھر گھر گھر صفائی کرتا۔ کبھی پھلوں کی ریڑھی لگاتا اور کبھی مزدوری شروع کردیتا۔ عمر اٹھارہ سال ہوئی تو وہ اس زندگی سے تنگ آگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک پروگرامر بننا ہے۔ وہ ایک یونیورسٹی میں جانے لگا۔ محنت مزدوری سے گزر بسر کرتا اور یونیورسٹی کی فیس ادا کرتا۔

مزید پڑھیے۔۔۔