شریعہ اینڈ بزنس آپ نے ذکر کیا کہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے لوگوں میں Awarenessکی کمی ہے۔ لوگ اصل میں پریشان اس وقت ہوتے ہیں جب کنونشنل بینکوں کے ساتھ اسلامک ونڈوز کھل جاتی ہیں۔

 

 


٭…اسلامی بینکاری کا مقصد لوگوںکی مالی مدد نہیں، بلکہ خالصتاً ایک کاروبار ہے، چنانچہ جہاں جہاں نفع کی توقع ہوتی ہے، وہاں اسے فروغ مل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر دبئی اور یورپ وغیرہ میں اسلامی بینکاری کو بہت زیادہ فروغ مل رہا ہے ٭…اس وقت اسلامی بینکنگ میں ’’رجالِ کار‘‘ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، ایسے رجال کار جو عصری اور شرعی دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ ہوں، الحمدللہ! جامعۃ الرشید کی اس سلسلے میں خدمات قابل تحسین ہیں

مفتی احسان وقار
یہ اشکال واقعتا ہوتا ہے کہ جوبرانچ مکمل اسلامی ہو، عوام اسے تو صحیح سمجھتے ہیں، لیکن اگر کسی کنونشنل بینک کی اسلامک برانچز ہوں تو اس پر ان کو اشکال رہتا ہے، جس سے وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج ITکا سسٹم بہت ترقی کر چکا ہے۔ وہ اتنا منظم ہے کہ ایک ہی دفتر میں بیٹھ کر دو نظام چلائے جا سکتے ہیں اور وہ خلط ملط بھی نہیں ہوتے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ بعض کاروبار، دوکان یا صنعتیں ایسی بھی ہیں جو خاندانی روایت پر چلی آرہی ہیں۔ جس میں ایک بیٹا ایک شعبے کی، دوسرا دوسرے شعبے کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے، لیکن دونوں ایک ہی آفس میں ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ دونوں کے حسابات بالکل الگ ہوتے ہیں۔ جس طرح وہاں دو طرح کی تجارت ایک ہی چھت کے نیچے ممکن ہے، اسی طرح اسلامی بینکاری اور مروجہ بینکاری بھی ایک ہی شاخ کے اندر ہو سکتی ہے، جبکہ ان کا تو ITسسٹم بھی انتہائی منظم و مؤثر ہوتا ہے۔ پھرا سٹیٹ بینک کی طرف سے ریگو لیشن اس بارے میں اتنی سخت ہے کہ دو طرح کے اموال کے خلط ملط ہو جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

’’ونڈوز‘‘ کے فوائد یہ ہیں کہ اس میں بہت زیادہ اخراجات نہیں کرنے پڑتے۔ ایک ادارہ جو پہلے سے قائم ہے، اسے صرف چند آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مؤثر سسٹم لگا کر اسے مرکز سے مربوط کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے اس کا جائزہ لیں کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جو عوام کو پریشان کر رہی ہیں، یا ان سے اشکالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے ان سب اشکالات کو اچھے انداز میں حل کریں اور اس سسٹم کی مارکیٹنگ عمدہ انداز میں کریں۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے بے شمار مثبت راہیں نکلیں گی۔

شریعہ اینڈ بزنس
یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں جتنے بھی مالیاتی بحران آتے ہیں،بینکاری کا اسلامی ماڈل ان بحرانوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ اس پر روشنی ڈالیے کہ اس کا اصل سبب اور راز کیا ہے؟

مفتی احسان وقار
بحرانوں کی دراصل دو وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ بحران جو ماضی قریب (2007-8ئ) میں رونما ہوا، اس کی بنیادوں میں وہ اسباب ہیں جن کی اسلامی شریعت کے لحاظ سے مکمل ممانعت ہے۔ ایک چیز تو مستقبلیات(Future sales) تھی، دوسری ایسی مارگیج کی فروخت جن کی کوالٹی نہایت ناقص تھی۔ ایک اور چیز ڈیفولٹ سواپ تھے۔ یہ جوے اور سٹے ہی کی ایک شکل ہے، انشورنس سیکٹر میں اس کی ممانعت ہے۔ کیونکہ انشورنس کا اصول ہے وہ Pure Risk پر کام کرتا ہے Speculated پہ نہیں۔ فرض کریں ایک شخص نے اپنی گاڑی کی قسطیں ادا کرنی ہیں، وہ اس بات پر انشورنس لیتا ہے کہ اگر آگے چل کر’’جاب لیس‘‘ ہو جائوں تو میری قسط کی ادائیگی متاثر نہ ہو۔ اسی کی ذمہ داری انشورنس کمپنی اپنے ذمے لیتی ہے۔ ہم اس تناظر میں انشورنس کوجائز نہیں کہہ رہے، تاہم خود انشورنس کے اصولوں کو دیکھتے ہوئے انشورنس کمپنی اسے اس بات کی تو اجازت دیتی تھی۔ دوسرا مرحلہ جس کی وجہ سے بحران آیا وہ یہ ہے، مثلاً: میری نادہندگی پر دوسرے لوگوں نے سٹہ لگایا، ایک شخص جس کا اس میں ’’انٹرسٹ‘‘ تھا ہی نہیں، جس کی گاڑی تھی ہی نہیں، اس نے شرط لگائی کہ اگر فلاں شخص نادہندہ ہوگیا تو مجھے بھی پیسے ملیں گے، لہذا یہ بھی پریمیم دینے لگا۔ اسے یہ امید تھی کہ جس دن وہ نادہندہ ہوگا تو انشورنس کمپنی ایک تو اصل نادہندہ کو انشورنس دے گی، ساتھ ہی اس شخص کو بھی دے گی، جس نے اس سے شرط لگائی تھی۔ اس طرح بہت سے لوگوں نے شرط لگائی جبکہ انشورنس کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ عالمی مالیاتی بحران آنے کی دوسری وجہ مورگیجز یعنی ایک شخص نے اپنی وسعت سے زیادہ خرچہ اپنے ذمے لے لیا، اس کی بنیاد ہی فرضی چیزوں پر قائم تھی، اس نے تو آخر کار کہیں جا کر ڈھیر ہونا ہی تھا۔ ایسے مارگیجز بینکوں نے اٹھا لیے۔ لوگوں نے شارٹ ٹائم نفع کو دیکھا۔

اگر اسلامی بینکاری ایسے شخص کو فنانس کرے جس کے پاس واپس کرنے کی مالی استطاعت نہ ہو تو اس میں بھی بینک کا خسارہ ہے،لہذا اس اصول کو مدنظر رکھ کراسلامی بینک نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن اگر کسی موقعے پر تجارت کے نقصان کو مدنظر رکھا جائے اور نفع نقصان کے درمیان معاملہ دائر ہو تو وہ تو عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے، کیونکہ اگر بالکل ہی Risk کا عنصر نہ ہو تو گارنٹی بن جائے گا اور گارنٹی پرافٹ اسلام میں پہلے ہی جائز نہیں ہے، لہذا فنانس کے موقع پر یہ خیال رکھا جائے کہ کسٹمر میں Repay کرنے کی صلاحیت ہو، تاکہ Depositers کو نقصان نہ پہنچے۔ البتہ اگر کسٹمر کی معاشی حالت بہتر ہو اور پھر کسی وجہ سے وہ واپسی ادائیگی نہ کر سکے تو یہ معیشت کا ایک حصہ ہے اور ایسے حقیقی خطرات کاروبار کو لاحق رہتے ہی ہیں، ان میں ایسے نادر نقصانات برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ 2007-8ء کے کرائسس کی نوعیت مختلف تھی، کیونکہ وہ سٹے اور بیع الدین کی بنا پر ہوا تھا،ان کی اسلام میں ممانعت ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
انگلینڈ میں چھ بینک مکمل طور پر اسلامی ہیں، اسی طرح پاکستان میں پانچ بینک مکمل اسلامی ہیں۔اس فہرست میں انگلینڈ کے بعد دبئی، پھر فرانس کا نام بھی نمایاں ہے، یعنی یہ ممالک اسلامی بینکاری میںہم سے آگے ہیں… اس کی کیا وجوہات ہیں؟

مفتی احسان وقار
بین الاقوامی سطح پر کاروبار کا حجم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ اسلامی بینک ایک بزنس ہے، کوئی رفاہی ادارہ نہیں، یہ نفع اور نقصان دونوں کے درمیان دائر ہو کر چلتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوںکی مالی مدد نہیں،بلکہ خالصتاً ایک کاروبار ہے، چنانچہ جہاں جہاں نفع کی توقع ہوتی ہے، وہاں اسے فروغ مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے بین الاقوامی طور پر دبئی اور یورپ وغیرہ میں اسلامی بینکاری کو بہت زیادہ فروغ مل رہا ہے، وہاں کاروبار کا حجم پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، پاکستان تو اس کے قریب قریب بھی نہیں۔ وہاں کی مسلمان آبادیاں اس چیز کو ترجیح دیتی ہیں کہ کاروبار بھی ہواور شرعی حوالے سے بھی کوئی قباحت نہ ہو۔

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے بڑے بینک اس ضرورت کو یہاں بخوبی محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اسی ضرورت کا اثر ہے کہ کئی بینکوں نے خود کو اسلامی بینکوں میں کنورٹ کر لیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہاں بزنس ہے۔ بزنس بھی ہو اور حلال طریقے سے ہو تو کسے برا لگے گا؟ لہذاگر انہیں ایک بزنس کے تناظر میں لیا جائے، نہ کہ این جی اوز سمجھا جائے تو بیرون ممالک میں اس کے بھاری حجم کی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
آخری سوال یہ کہ ہماری تعلیم میں ایک بڑا طبقہ مفتیان کرام کا بھی ہے، تو مفتیان کرام کو یاجو حضرات یہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یا MBAکر رہے ہیں، ان کو آپ کیا کہیں گے کہ اگر وہ اسلامی بینکنگ کی فیلڈ میں آنا چاہتے ہیںیا اسلامی مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کی کسی بھی درجے کی کوئی کوشش کرتے ہیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ کن چیزوں میں زیادہ محنت کرنی چاہیے، مارکیٹ میں ان کے لیے کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے؟

مفتی احسان وقار
اس وقت اسلامی بینکنگ میں ’’رجالِ کار‘‘ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، ایسے رجال کار جو دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ ہوں۔ الحمدللہ! جامعۃ الرشید اس سلسلے میں جو خدمات انجام دے رہا ہے میری نظر میں وہ انتہائی قابل تحسین ہیں اور وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس کا ادراک ان شاء اللہ سبھی کو آئندہ چند ہی سالوں میں ہو جائے گا۔ یہاں سے جو طالب علم مفتی بن کر اور MBAکر کے فارغ ہو رہے ہیں، ان کی کھپت بہت زیادہ ہوگی۔ البتہ ان طلبہ سے ایک چیز کی میں ضرور درخواست کروں گا، یہ صرف شریعہ ایڈوائزر یا شریعہ بورڈ کا ممبر بننے کو ترجیح نہ دیں، کیونکہ ان کی مطلوبہ تعداد بہت محدود ہے۔اس کے بجائے وہ دوسرے شعبوں میںکام کریں، تاکہ عوام میں جو غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں وہ ان کی مناسب ڈیلنگ کی وجہ سے دور ہو سکیں۔

اکثر عوام کو اشکالات ان ورکرز کی غلط روش کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جو اسلامی بینکنگ کی باریکیوں سے آشنا نہیں ہوتے۔ اس کی بہت ضرورت ہے تاکہ مجموعی طور پر اسلامی بینکنگ سے متعلق اچھا تاثر پیدا ہو۔ اسی طرح جامعۃ الرشید کے طرز پر دوسرے اداروں کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، تب ہی مختلف شعبوں میں اصلاحی تبدیلی آنا ممکن ہو سکے گا۔

(ان تاثرات کو صرف میری ذاتی رائے سمجھا جائے، یہ ضروری نہیں کہ میرا ادارہ بھی اس رائے سے متفق ہو۔)