چائنا نے حال ہی میں ’’ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘‘ قائم کر کے امریکا کی معاشی اجارہ داری کو بلاشبہ چیلنج کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے عالمی طور پر یہ بینک غور و خوض کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ کیا ’’ایشیائی ترقیاتی بینک‘‘ اپنے تئیں براعظم ایشیائی ممالک بالخصوص پڑوسی ممالک کے لیے آئی ایم ایف ودیگر سرمایہ دارانہ طاقتوں کی اندھی بہری غلامی سے نجات دہندہ ثابت ہو گا؟ بالخصوص اپنے قریبی ترین دوست ملک وطن عزیز پاکستان کے لیے کس حد تک معاشی طور پر مفید ثابت ہو سکے گا؟ یہ اور اس قسم کے سوالوں کے ساتھ شریعہ اینڈ بزنس نے مختلف ماہرین معیشت کے در پر دستک دی۔ آیا ان کی فکر و نظر اور وسیع تجربہ اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟ نتیجتاً حوصلہ افزا حقائق سامنے آئے۔ آئیے! تفصیل سے ملاحظہ کرتے ہیں۔
٭… مملکتوں یا اداروں کی بنیاد پر جتنے بھی قرضے حاصل کیے جاتے ہیں، اس کے سود مند نہ ہونے کی بڑی وجہ سودی طرز معیشت ہے۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سود کی شرح کم ہو یا زیادہ، وہ بہرحال تباہ کن ہے ٭… آج جب ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک معاشی قیادت کے اس بڑے منصب پر فائز ہونے جا رہا ہے تو ہمارے لیے اس میں بڑی عبرت کا سامان ہے
جناب عتیق میر
چیئرمین: آل کراچی تاجر اتحاد
’’ایشین‘‘ بینک کے قیام کے تناظر میں اتنی بات تو تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس سے یقیناً قرض کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا، جس سے غریب ممالک کے لیے امریکا کی بہ نسبت زیادہ سہولت ہو گی۔ چائنا کی قرض دینے کی شرائط IMF کے مقابلے میں کچھ کم بھی ہیں اور فرینڈلی بھی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی کہ ایشین بینک کو ابھی IMF کے حوالے سے بڑا چیلنج درپیش ہو گا، کیونکہ اب تک آئی ایم ایف جتنے ممالک کو جس انداز میں اپنے چنگل میں پھانس چکا ہے، اس کے پیش نظر اس کی اجارہ داری ختم کرنے میں وقت لگے گا۔ قرضوں کے علاوہ آئی ایم ایف کی مداخلت سیاسی، اقتصادی اور معاشی حوالوں سے بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے لیے اب سنہرا موقع ہے کہ IMF سے جان چھڑالے۔ اس معاشی جوڑ توڑ کے بیچوں بیچ یہ ضرور واضح کر دوں کہ تمام ممالک کے معاشی مسائل کی جڑ میں اصل وجہ ’’سود‘‘ ہے۔ مملکتوں یا اداروں کی بنیاد پر جتنے بھی قرض حاصل کیے جاتے ہیں، اس کے سود مند نہ ہونے کی بڑی وجہ سودی طرز معیشت ہے۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سود کی شرح کم ہو یا زیادہ، وہ بہرحال تباہ کن ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو چاہیے کہ وہ سودی بینکنگ سے نکل کر اسلامی بینکنگ کی طرف آئے، نیز اسلامی ممالک کو بلاسود بینکا ری اور قرضوں کا اپنا نظام قائم کرنا چاہیے۔ چائنا کے پاس ظاہر ہے بہت بڑا حجم ہے کہ وہ سرمایہ قرض میں دے سکے۔ اگر اسلامی ممالک بھی ایسا کوئی بینک بنائیں اور دوسرے ممالک کو بلاسود قرض دیں تو میں یہ سمجھتا ہوں مسائل سے نکلنے کا یہ سب سے بڑھ کر مثالی اور یقینی راستہ ہے۔
آج جب ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک معاشی قیادت کے اس بڑے منصب پر فائز ہونے جا رہا ہے، ہمارے لیے اس میں بڑی عبرت کا سامان ہے۔
ایک طرف چین کی یہ ترقی ہے تو دوسری جانب اپنی نااہلی کی وجہ سے ہماری معیشت کی حالت زار ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے، خصوصاً IMF ہمارے ملک کی معیشت میں براہ راست مداخلت کرنے لگا ہے۔ اسی طرح پاکستان جیسے آزاد اور نظریاتی ملک کی سیاست میں اس کی مرضی چلنے لگی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان آزاد تجارت کی طرف جانے والا ملک تھا، مگر افسوس کہ پاکستان آزاد تجارت میں وہ متوقع اور ممکنہ کردار ادا نہ کر سکا۔ یہی وجہ ہے آج آپ دیکھیں پاکستان کے پاس بین الاقوامی طور پر سوائے بانڈز فروخت کرنے کے جو کہ Indirectely پاکستان کو مقروض کر رہے ہیں، کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسہ نہیں، اگر ہے تو اس کی منصفانہ تقسیم نہیں۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں آپ کرپشن کی گرم بازاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ سو، اس اسلامی پاکستان کے پاس اپنی معاشی بحالی کا کوئی راستہ ہے تو وہ صرف اسلامی نظام معیشت اور غیر سودی بینکاری کی طرف آنا ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
سابق مشیر برائے ٹیکسٹائل، چیئرمین پاکستان ٹیکسٹائل سٹی، معروف صنعت کار
اس بینک کے قیام میں کافی ممالک نے چین کا ساتھ دیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ایشیا میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کی جائے، اس لحاظ سے یقینا یہ ایک رول ماڈل ہے۔ اگر یہ کامیاب ہو گیا تو اس کے بعد IMF کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں ایشیا کو یورپ اور امریکا پر انحصار کم کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے ذریعے ان کے سیاسی مفادات کنٹرول ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ بہت اچھا اور دور رس اقدام ہے۔ یہ معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے نیک شگون ہو گا۔ پاکستان میں 34 بلین ڈالر اور 11 بلین ڈالر ترقیاتی انٹر سیکشن کے جو منصوبے ہیں، وہ چائنا کے ذریعے فائنل کیے جائیں گے۔
بلاشبہ معاشی طور پر ہمیں تو صرف ایک ہی ملک سے امید ہے اور وہ چین ہے۔ بعض ممالک کے ویٹو پاور حاصل کرنے کی جو خبریں آ رہی ہیں، میرا خیال ہے اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
معروف ماہر اقتصادیات و معاشیات
یہ ایشیائی ترقیاتی بینک ایشیا میں کام کرے گا۔ ابھی اس کا کام چھوٹے پیمانے پر ہے۔ اس کو ترقی کرنے میں وقت لگے گا۔ تاہم یہ ایک ایسا اقدام ہے کہ جو آگے چل کر امریکا کی استعماریت اور امریکا کے اشارے پر چلنے والے اداروں یعنی عالمی بینک اور IMF کو ضرور متاثر کرے گا۔ اس بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔ یورپ اور امریکا کے تمام ذخائر اکیلے چین کے دگنے سے زیادہ ہیں۔ چین کے پاس موجود ذخائر چار ہزار ارب ڈالر ہیں، امریکا کے ذخائر 14 ارب ڈالر ہیں، کتنا بڑا فرق ہے۔
دوسری بات دیکھنے کی یہ ہے کہ چین نے اب دلچسپی لینی شروع کی ہے۔ وہ امریکا اور ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا، یہ اثر و رسوخ سیاسی بھی ہو گا اور معاشی بھی۔
یہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ امریکا آہستہ آہستہ زوال کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کے وفادار لوگ آگے آئیں اور چین کے ساتھ تعلقات بنائیں۔ امریکا اور افریقا کے ساتھ جو ادارے ہیں ورلڈ بینک اور IMF ان پر انحصار کم کرنا شروع کریں۔ 4 ہزار ڈالر سے امریکا کے 145ارب ڈالر میں تو کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے طاقتور طبقے جن میں حکمران اور سیاست دان شامل ہیں، یہ سب امریکی سوچ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر ترقی کے مواقع ملیں بھی تو یہ لوگ اسے اپنی مفاد پرستی کی نذر کر دیتے ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں امریکی اور آئی ایم ایف کی اجارہ داری کے سامنے چین کا یہ بینک ٹھہر نہیں سکے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ چین کسی ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا جو ناکام ہونے والا ہو، ورنہ وہ اس ترقی کو کبھی نہ پہنچ پاتا۔ یہ چین چار سال پہلے ایسے ہی تھا جیسے ہم ہیں، اگر آج وہ اتنی بڑی طاقت بن گیاہے تو مزید بہتر مستقبل کی بھی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بیٹھے امریکی سوچ کی نمائندگی کرنے والے لوگ جان بوجھ کر قو م کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ چین نے جو منصوبے شروع کیے ہیں، ان میں ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں آپ کو پوری ذمہ داری سے بتا رہا ہوں مجھے چین کا بھی پتا ہے اور یورپ و افریقا کا بھی، لہذا یہ سمجھنا کہ چین کا کوئی منصوبہ ناکام ہوگا، اللہ کے ہاتھ میں تو ہے لیکن بظاہر ناکامی کا کوئی امکان نہیں۔
الحاج ہارون رشید چاند
صدر: آل سندھ صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن
’’ایشیائی ترقیاتی بینک‘‘ کے قیام سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے یقیناًمتاثر ہوں گے۔ چائنا نے یہ بینک قائم کر کے امریکا کے نظام کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اس تناظر میں ظاہر ہے چین کا یہ اقدام اس لائق ہے کہ اس کا خیرمقدم کیا جائے۔ اس سے امریکا کی معاشی کمزوریاں بھی طشت از بام ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا ذاتی طور پر میک اپ کر رہا ہے۔ ڈالر چھاپ رہا ہے۔ جس طرح پاکستانی حکومت کرنسی چھاپ رہی ہے، اسی طرح امریکا بھی ڈالر چھاپ رہا ہے۔ اس کا یہ میک اپ بھی اس بینک کے ذریعے اتر جائے گا۔
اسی طرح یہ بھی پیش نظر رہے کہ بھارت نے غالباً ایک یا دو ارب ڈالر دے کر جو نیٹو پاور حاصل کی ہے اس کا پاکستان پر یقینا اثر پڑے گا اور اس کی وجہ سے قرضوں کی وصولی میں مشکلات ہوں گی۔ ان سب حوالوں سے ’’ایشیائی ترقیاتی بینک‘‘ پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔