٭…کویتی بینک ہمارے منصوبہ جات میں خصوصی دلچسپی لینے لگے جو کسی بھی تاجر کے لیے بڑی اہمیت کی بات ہوتی ہے۔ 2003 ء میں جب ہمارا گروپ خوب مشہور ہو گیا تو ہم نے کویتی دار الحکومت تک اپنے پَر پھیلا دیے ٭…یہ دنیا مقابلے کی ہے، یہاں پر ہر دوسرا شخص آپ کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنے عملے اور ٹیم پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے اگر خود بھی کام میں شریک اور نگرانی کرتے رہیں گے تو بہت جلد ترقی کی منازل طے کر لیں گے
٭…کسی کی امداد کرنا یا پھر اسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دینا، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لڑکپن میں نوجوان ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے اور کام سے جی چراتے رہتے ہیں، لیکن ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد بہت کچھ سوچنے لگتے ہیں، مگر اب وقت گزر چکا ہوتا ہے
سوال
آپ کا ابتدائی تعارف جاننا چاہیں گے؟ نیز یہ بتائیے کہ عملی زندگی کا آغاز کب کیا؟
سعود صاہود المطیری
میرا نام سعود صاہود المطیری ہے۔ میری پرورش بھی کویت کے عام باشندوں کی طرح ہوئی۔ ہمارے خاندان کے مالی حالات زیادہ اچھے نہ تھے۔ تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوا۔ کویت جنگ میں سات ماہ جیل بھی کاٹی۔ 1984ء میں ملازمت سے ملنے والی تنخواہ ناکافی ہونے لگی تو میں نے مزید کاروبار کرنے کا سوچا۔ اسی سال چھوٹی سطح پر گاڑیوں کا کاروبار شروع کر لیا۔ 1991 ء میں جب جنگ کی وجہ سے کویت کی معاشی کمر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی تو ہم نے دن رات محنت کر کے ملک کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ ہم نے گاڑیوں کا کاروبار ایسے حالات میں کیا جب گاڑیوں کی انڈسٹری خستہ حالت میں تھی کوئی اس طرف آنا نہیں چاہتا تھا۔ میں ایک زمانہ تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بھی کام کرتا رہا۔
سوال
آپ نے مختصر عرصے میں تیز ترین ترقی کی، اس کا کیا راز ہے؟
سعود صاہود المطیری
جی ہاں! اللہ نے مجھے بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جب کوئی محنت کرتا ہے تو خدا اسے پھل دیتا ہے۔ چار سال تک میں نے دلجمعی سے خوب محنت کی۔ 1995 ء تک میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہو گئی، اب گاڑیوں کے ساتھ مکانوں اور ہوٹلوں کی لین دین کا کام بھی شروع کر لیا۔ کویت کے ’’مہبولۃ‘‘ نامی مقام پر سب سے پہلے یہ کام ہم نے شروع کیا۔ صرف تین سال کے مختصر عرصے میں مجھے اپنے اندازے سے زیادہ نفع ہوا۔ اس کی وجہ سے میری کام میں ذاتی مداخلت تھی۔ میں اپنے عملے پر انحصار نہ کرتا تھا۔ جہاں تک ہو سکتا خود کام کرنے کو ترجیح دیتا۔ نفع کی ایک وجہ ریٹ بڑھ جانا بھی ہے۔ ہم نے جب کام شروع کیا تو 60 دینار فی میٹر عام ریٹ تھا۔ آج 700 دینار فی میٹر بمشکل ملتا ہے۔ 1996ء میں 10 ملین دینار کی لاگت سے ایک منصوبہ شروع کیا، جس میں ہمارے 3 ملین دینار جب کہ تجارتی بینکوں کے 7 ملین دینار لگائے۔ تھوڑے عرصے بعد یہ منصوبہ 100 ملین دینار سے فروخت ہوا۔ یہ میری زندگی کا ایک بڑا منافع تھا۔ 1999 ء میں ہم نے ہوٹلوں اور مکانوں کے ساتھ کنسٹرکشن کا کام بھی شروع کر لیا۔ ہم نے ماہر انجینئروں اور تجربہ کار لوگوں کو ترجیح دی۔ جس سے ہمیں ناقابل یقین فائدہ ہوا۔ ہمارے ساتھ مختلف گروپوں نے کام کرنے کی رغبت ظاہر کی جو ہمارے لیے باعث فخر تھی۔ یوں ہمارے گروپ نے مختلف شعبوں میں کاروبار کی ٹھانی۔ عمارتیں بنانا، کھدائی کا کام اور مختلف VIP ہوٹلز کرائے پر دینا،و غیرہ۔ اس کے علاوہ کئی اوربھی چھوٹے بڑے کام شروع کر لیے۔ کویتی بینک ہمارے منصوبہ جات میں خصوصی دلچسپی لینے لگے جو کسی بھی تاجر کے لیے بڑی اہمیت کی بات ہوتی ہے۔ 2003 ء میں جب ہمارا گروپ خوب مشہور ہو گیا تو ہم نے کویتی دار الحکومت تک اپنے پَر پھیلا دیے۔
سوال
آپ کو گذشتہ سال بل گیٹس ثانی کا لقب ملا، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
سعود صاہود المطیری
جی ہاں! گذشتہ سال مجھے خلیجی ممالک کا ’’بل گیٹس‘‘ کہا گیا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ خلیجی ممالک میں کوئی گروپ ہمارے جتنا کاروبار نہیں کر رہا تھا۔ تجارتی بینک ہمارے کاروبار میں خوب رغبت رکھتے تھے۔ مجھے بل گیٹس کا لقب ملنے کی ایک اور وجہ میرا ایک معاہدہ تھا۔ میں نے ایک تجارتی پلازہ 200 بلین ڈالر میں خریدا اور چند ہی دنوں بعد 300 بلین ڈالر میں فروخت کر دیا۔ یوں خلیجی ممالک کے تاجروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس پر ہمارے گروپ کو بے پناہ شہرت ملی اور مجھے کویت کا بل گیٹس کہا جانے لگا۔
سوال
کویتی عوام آپ کی دولت کے بارے میں دو رائے رکھتے ہیں، کیا یہ محض الزام تراشی ہے؟
سعود صاہود المطیری
دیکھیے! ہر کسی کی نظر کا اپنا اپنا پیمانہ ہوتا ہے۔ آپ مزید وضاحتوں سے کسی کا نکتۂ نظر بمشکل ہی بدل سکتے ہیں۔ ہنری فورڈ نے بہت پہلے کہا تھا: ’’نہ شکایات کرو اور نہ ہی کبھی تشریح کرو۔‘‘ ہم اس مقام تک اپنی محنت سے پہنچے ہیں، یہ دولت ہمیں وراثت میں نہیں ملی۔ میں آج جب اپنے ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو بہت کچھ یاد آتا ہے، لیکن ساری مشقتیں اور تکلیفیں اس محنت کے بدلے ملنے والے صلے کی وجہ سے بھول جاتی ہیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ جب کسی کو اپنے سے بلند مرتبے پر دیکھتا ہے تو دو طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں: یا تو دوسرے پر الزام لگا کر خود تسلی دیتا ہے یا پھر محنت سے وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں منفی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ آگے بڑھیے اور ملک و ملت کی ترقی کا سبب بنیے، دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے آپ بھی محنت کریں۔ خداوند کریم کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ میں جب فوجی ملازم تھا تو کبھی اس مقام تک پہنچنے کا خیال بھی نہیں آیا تھا۔ آج دولت کو دیکھتا ہوں تو عزم دوبارہ جوان ہو جاتا ہے۔
سوال
خلیجی ممالک ترقی کر رہے ہیں، لیکن بے روزگاری ابھی تک ختم نہیں ہوئی، آپ اس کا کیا حل سمجھتے ہیں؟
سعود صاہود المطیری
بے روزگاری کا حل کسی جادو کی چھڑی سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ہمیں طویل المدت منصوبے بنانے ہوں گے۔ ہماری حکومتیں اس میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اگرچہ حکومت عوام کا خیال رکھنے کی بھر پور کوشش کرتی ہے، لیکن کسی کی امداد کرنا یا پھر اسے اپنے قدموں پر کھڑا کر دینا، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لڑکپن میں نوجوان ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے اور کام سے جی چراتے رہتے ہیں، لیکن ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد بہت کچھ سوچنے لگتے ہیں، مگر اب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے نوجوانوں کو روزانہ خرچہ دینے کے بجائے انہیں کوئی کام تلاش کر کے دیں، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
سوال
سنا ہے آپ ’’برج خلیفہ‘‘ دبئی سے بڑا ٹاور بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
سعود صاہود المطیری
ہمارے گروپ نے حال ہی میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ برج خلیفہ جو کہ دنیا کا سب سے لمبا ٹاور ہے۔ اس سے 830 میٹر لمبا ٹاور بنایا جائے، جس پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔ مستقبل میں یہ دنیا کا لمبا ترین ٹاور ہو گا۔
سوال
آپ کا گروپ کویت میں مزید کن کن کاموں میں انویسٹمنٹ کرتا ہے؟
سعود صاہود المطیری
ہمارا گروپ اب کسی شعبے میں منحصر نہیں رہا۔ بلکہ مختلف النوع کاموں میں انویسٹمنٹ کرتا ہے۔ ہم ’’شرکۃ الطیران کویت‘‘ سیمنٹ فیکٹری اور گاڑیوں میں ’’حافلۃ المدینۃ‘‘ جیسے منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس سے ہمیں سالانہ بھاری منافع ہوتا ہے۔
سوال
تاجروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
سعود صاہود المطیری
میں تاجروں سے یہی کہوں گا ہمیشہ اپنے مقصد پر نظر رکھیے۔ یہ دنیا مقابلے کی ہے یہاں پر ہر دوسرا شخص آپ کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنے عملے اور ٹیم پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے اگر خود بھی کام میں شریک اور نگرانی کرتے رہیں گے تو بہت جلد ترقی کی منازل طے کر لیں گے۔ لوگ آپ کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو صاف رکھیے۔ ہمیشہ اپنے ملازمین کا خیال رکھیے۔