شریعہ اینڈ بزنس آغاز آپ کے تعارف اور تعلیمی و تجارتی پس منظر سے کرتے ہیں۔ ابراہیم کسمبی مجھے کاروبار سے منسلک ہوئے 24 سال ہو گئے ہیں۔ تعلیم ملک و بیرون ملک دونوں جگہ حاصل کی ہے۔ پاکستان میں بی کام تک کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح IBA کراچی سے کچھ کورسز بھی کیے۔ میرا کاروبار پلاسٹک کا خام مال یعنی پلاسٹک کا دانہ اور کیمیکلز وغیرہ کی در آمد ہے۔ میں اس کا ڈسٹری بیوٹر بھی ہوں، کچھ غیر ملکی کمپنیوں کو سپلائی کرتا ہوں۔ خام مال کا تعلق ’’پٹرولیم‘‘ سے ہے۔


٭… نہ جانے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ٹیکس کی چوری کسی ایک آدمی کی چوری نہیں ہے۔ یہ پورے ملک، سارے عوام اور اس معاشرے کی چوری ہے۔ آپ انفرادی حیثیت سے کسی کا مال ہتھیا لیں، کل نادم ہو کر اس سے معافی مانگ سکتے ہیں، لیکن 20 کروڑ عوام کے حق کی تلافی کیسے کریں گے؟ ٭…کامیابی کسی خاص کاروبار میں چھپی ہوئی نہیں ہے۔ بس یہ دیکھیے کہ جو کام آپ کی سمجھ میں آ جائے اور اس میں اللہ آپ کو کامیابی بھی دے دے، بس وہی اچھا کاروبار ہے

خام تیل کی ریفائننگ کے بعد پٹرولیم سے جو چیزیں بنتی ہیں، ان میں سے ایک یہ پلاسٹک بھی ہے۔ ہم اس سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں اس کی کھپت سات لاکھ ٹن کی ہے۔ تقریباً سارا ہی درآمد ہوتا ہے۔ بہت تھوڑا یہاں پر بنتا ہے۔ تاہم اس کا استعمال بہت وسیع پیمانے پر ہے۔ گاڑیاں، آٹو موبائل انڈسٹری، گھریلو برتن، فرنیچر اور دیگر سامان تھیلیاں وغیرہ اسی سے بنتی ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
یہ بتائیے کہ یہ آپ کا خاندانی بزنس ہے یا آپ نے اپنی محنت سے اس میں بلندی حاصل کی؟

ابراہیم کسمبی
یہ کاروبار تو میں نے خود سے شروع کیا تھا۔ میرے والد صاحب تقسیم ہندوستان سے پہلے کلکتہ میں چائے کا کاروبار کرتے تھے۔ ہندوستان میں ’’دارجلنگ‘‘ کے علاقے میں دنیا کی بہترین چائے پائی جاتی ہے۔ میرے والد صاحب اس علاقے سے چائے خرید کر ہندوستان بھر میں سپلائی کرتے تھے۔ گویا ہمارا خاندانی کاروبار تو چائے کا تھا۔ تقسیم کے وقت کلکتہ میں سب سے زیادہ بدترین حالات تھے۔ یوں میرے والد کو گھر بار اور کاروبار سب چھوڑنا پڑا۔ یہاں کراچی میں آئے تو پاکستان میں چائے کی پیداوار تھی نہیں، لہذا انہیں دیگر مختلف کاروبار دیکھنے پڑے۔ سوتی دھاگہ اور درآمدی چائے وغیرہ کی خرید و فروخت کرتے رہے۔ کپڑے کا کام بھی انہوں نے کیا۔ جب میں تعلیم سے فارغ ہوا تو میرے والد کے کاروبار کی صورت حال اچھی نہیں تھی۔ ہمارے دیگر رشتہ دار پہلے سے کیمیکل اور پلاسٹک وغیرہ کے کاروبار سے منسلک تھے۔ پھر میں نے بھی جب اس کاروبار کو اسٹڈی کیا تو میرا رجحان اس طرف ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کامیابی دی۔ رفتہ رفتہ نام بن گیا، لوگ جاننے لگے۔ اس وقت نہ صرف پاکستان، بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہماری پہچان ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
مختلف لوگ اپنا اپنا کاروبار چلاتے ہوئے اس کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہم کسی طرح ایکسپورٹ، امپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہو جائیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ابراہیم کسمبی
جو شخص اس کاروبار سے پوری طرح واقف نہیں، وہ امپورٹ، ایکسپورٹ کو ایک ہی جیسی چیز سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ امپورٹر، ضروری نہیں کہ ایکسپورٹ بھی کر رہا ہو۔ عام طور پر ایسا ہی ہے کہ جو لوگ درآمد میں لگے ہوئے ہیں، وہ کل وقتی اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا پورا الگ ایک نظام ہے۔ اس کے قوانین، ٹیکس کا نظام اور دیگر ضوابط ’’برآمدات‘‘ سے کافی مختلف ہیں۔ برآمدات میں حکومت نے کافی سہولیات دی ہوئی ہیں۔ ایکسپورٹر عام طور پر مینوفیکچررز بھی ہیں۔ وہ چیزیں بناتے بھی خود ہیں، مثلاً: ٹیکسٹائل کی مصنوعات، گارمنٹس، لیدر، کھانے پینے کی مختلف اشیا اور سبزیاں وغیرہ برآمد کی جاتی ہیں۔ بہر حال! ایکسپورٹ ہو یا امپورٹ ان میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ دونوں کام کچھ آسان نہیں ہیں۔

کامیابی کسی خاص کاروبار میں چھپی ہوئی نہیں ہے۔ بس یہ دیکھیے کہ جو کام آپ کو اپنی سمجھ میں آ جائے اور اس میں اللہ آپ کو کامیابی بھی دے دے، بس وہی اچھا کاروبار ہے۔ اُسی پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ عمومی فطرت ہے کہ آدمی کو دوسرے کا کام اچھا لگتا اور اپنے کام کے اندر مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرا آدمی اگر آج اس مقام پر کھڑا ہے تو اس کے پیچھے اُس نے کتنی جان لگائی ہے۔ اس نے وقت، محنت اور مال خرچ کیا… بہت مشقتوں کے بعد وہ کام اس کی سمجھ میں آیا اور اسے اس کا پھل ملنا شروع ہوا۔ درآمد اور برآمد دونوں کاروباروں میں خاصی پیچیدگیاں ہیں۔ جس کی پرچون کی دکان اچھی چل رہی ہے، وہ اسے بلا وجہ بیچ کر کسی اور کام میں ہاتھ نہ ڈالے۔ اللہ تعالیٰ جس کاروبار سے آپ کو عزت کے ساتھ حلال روزی دے رہا ہے اور اُس سے آپ کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو بس یوں سمجھیں کہ آپ سے امیر آدمی کوئی نہیں ہے۔ بڑے بڑے بزنس مینوں کی حالت دیکھیے وہ بھاری رقوم کے ساتھ بینکوں کے مقروض ہوتے ہیں۔ وہ کتنے پریشان ہوتے ہے۔ آپ کسی کی محتاجی کے بغیر اپنا اچھا گزارا کر رہے ہیں تو یہی اصل مالداری ہے۔ زیادہ کی حرص میں ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہییں جس سے آپ کو کوئی بڑا دھچکا لگ جائے۔

شریعہ اینڈ بزنس
نیا کاروبار بالخصوص امپورٹ کے کاروبار میں نئے آنے والوں کے لیے اپنے تجربے کی روشنی میں کوئی اصولی بات ذکر کریں تو بہت اچھا ہو گا!

ابراہیم کسمبی
ہمارے سماج کا عمومی مزاج یہ ہے کہ والد جس کاروبار سے منسلک ہو، بیٹا بس اسی کاروبار سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ پھر کوشش کر کے اُسے آگے بڑھاتا ہے۔ یہ بات ایک لحاظ سے بہت اچھی ہے، لیکن بعض اوقات بیٹے کو اپنے باپ کا کاروبار سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا، اس کے ساتھ اس کی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں اس کاروبار پر ہرگز اصرار نہیں ہونا چاہیے۔ والدین بلاوجہ مجبور کریں نہ ہی بیٹا غیرضروری طور پر اس سے چمٹا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں مختلف طرح کا جوہر اور صلاحیت رکھی ہے۔ وہ اپنے رجحانات کے مطابق فیصلہ کر لے۔ اس کے بعد اُس کاروبار سے متعلقہ تعلیم حاصل کر لے۔ اگر وہ کسی ملازمت میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس میں بھی جا سکتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام کو باقاعدہ سیکھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے کسی مخلص اور خیر خواہ دوست کے ساتھ جڑ جائے، جو اسے بہت چھوٹی سطح سے لے کر آگے چلے۔ کاروبار میں تجربہ بہت ضروری ہے۔ نیز یہ ذہن میں رہے کہ فائدہ تدریجاً حاصل ہو گا۔ کاروبار میں جلد بازی اور راتوں رات ارب پتی بننے کا تصور موجود نہیں ہے۔

کاروبار میں آنے کے بعد ممکن ہے آپ کو ابتدا میں کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ اسے آپ یونہی سمجھیں جیسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ فیس ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹا موٹا نقصان کھلے دل سے برداشت کرنا چاہیے۔ پوری توجہ کے ساتھ نقصان کے اسباب پر غور کر کے ان سے سیکھنے کی کوشش کرے۔ آنکھیں اور کان کھلے رکھے۔ اپنا ہوم ورک مکمل رکھے۔ سیکھنے کا عمل مرتے دم تک نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اپنے شعبے سے متعلق جہاں سے جو بھی کوئی معلومات مل جائے اس سے استفادہ کرے۔ آج کل تو سیکھنے کے لیے اتنا کچھ میسر ہے کہ کسی حوالے سے ذرا مشکل نہیں۔ انٹرنیٹ تعلیم کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے آپ کو ایسی ایسی معلومات مل جاتی ہیں جو شاید کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی نہ مل سکیں۔ اس کا جائز استعمال ضرور کریں۔

اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آج کل ٹائم ضایع کرنے کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ پر بیٹھے بیٹھے گھنٹوں گزر جاتے ہیں، احساس تک نہیں ہوتا۔ اور خدانخواستہ کبھی تو نماز تک نکل جاتی ہے۔ وقت کی قدر کر نی چاہیے، یہ ایک بار گزر جائے، پھر واپس نہیں آتا۔ آپ کا کردار اصل چیز ہے۔ جس چیز کا آپ ارادہ کر لیں، پھر اُس پر قائم رہنے کی کوشش کریں۔ انسان کو کامیابی کے لیے جتنی قسم کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے، وہ پہلے سے ذہن میں رکھیں۔ اس کے لیے آمادہ اور تیار رہیں۔ آدمی کی جیب میں خواہ پھوٹی کوڑی نہ ہو، عزم اور جہد مسلسل سے اللہ تعالیٰ کئی دروازے کھول دیتا ہے۔ وسائل ملتے چلے جاتے ہیں۔

کاروبار میں معاملات کی صفائی اور دیانت داری سب سے اہم چیز ہے۔ اپنی زبان سے نہ پھرنا، جو سودا کر لیں، اس پر قائم رہنا، خواہ اس میں نقصان ہی ہو، کامیابی کا بہت اہم راز ہے۔ یہ نقصان کسی اور ذریعے سے اللہ تعالیٰ پورا کروا دیں گے۔ کوئی یہ سوچے کہ اس طے شدہ سودے میں مجھے جو نقصان ہو رہا ہے، اگر میں سودے سے مُکر جاؤں تو فائدہ ہو جائے گا، یہ اُس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سراسر خام خیالی ہے، ہرگز کوئی بچت نہیں ہوتی۔ یہ آگے چل کر کہیں نہ کہیں ضرور مار کھائے گا، نقصان اٹھائے گا۔ اپنی کاروباری زندگی میں ہم نے اس کی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اوپر جاتے دیکھا اور پھر اُسی رفتار سے نیچے گرتے بھی دیکھا۔ آج کاروباری دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں، جب کہ اس سے پہلے وہ کروڑوں میں کھیل رہے تھے۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں، جن کے پاس کچھ نہیں تھا، مگر آج کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں محنت اور صبر کی وجہ سے بہت دیا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت بہت سے لوگوں کا رجحان ناجائز کاروبار کی طرف ہے۔ کاروبار میں ایسے ایسے طریقے اور ہتھکنڈے ایجاد کیے جا رہے ہیں، جو سراسر ظلم اور زیادتی پر مبنی ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے، کاروبار سے متعلقہ حکومتی شعبوں میں اچھے لوگ بھی ہیں، مگر کالی بھیڑیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ ہماری تاجر برادری میں بھی بدقسمتی سے ایسے لوگ آ جاتے ہیں، جو ایسے دھندوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ انہیں دراصل تاجر کہنا ہی نہیں چاہیے۔ یہ چور ہیں، ڈاکو ہیں یا پھر اسمگلر۔ تاجر تو وہ ہے جو حلال اور قانونی طریقے سے اپنا بزنس کرے، اس کے معاملات شریعت سے ہٹے ہوئے نہ ہوں۔

نہ جانے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ٹیکس کی چوری کسی ایک آدمی کی چوری نہیں ہے۔ یہ پورے ملک، سارے عوام اور اس معاشرے کی چوری ہے۔ آپ انفرادی حیثیت سے کسی کا مال ہتھیا لیں، کل نادم ہو کر اس سے معافی مانگ سکتے ہیں۔ لیکن 20 کروڑ عوام کے حق کی تلافی کیسے کریں گے؟ ان کی بجلی یا ٹیکس چوری کی، تو یہ مت سمجھیں کہ آپ نے حکومت کی چوری کی، آپ 20 کروڑ کے مجرم ہیں۔ یہ لوگ تاجر ہیں، حکومتی لوگ یا کوئی اور… سب اس جرم میں یکساں شریک ہوں گے۔ اگر کوئی شخص ایمان داری کے تقاضے پورے کرے، اس کے باوجود اس کے ہاتھ کچھ نہ آ رہا ہو تو بھی مت پھسلے۔ اس کا اجر اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے۔
(جاری ہے)