شریعہ اینڈ بزنس آپ نے ’’عمیر پیٹروکیمیکلز‘‘ نامی کمپنی قائم کی، اپنے تجربات کی روشنی میں بتائیے اس کا آغاز کیسے کیا؟ کن مراحل سے گزرتے ہوئے کامیابیوں سے ہم کنار ہوئے؟
ابراہیم کسُمبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں کچھ عرصہ ملک سے باہر رہا۔ وہاں میں نے کام کیا، نوکریاں کیں۔ اس طرح میرے پاس کچھ رقم جمع ہو گئی۔ اسے لے کر میں پاکستان آیا۔ میری خواہش تھی کہ کاروبار کروں۔ پھر بہت چھوٹے پیمانے پر میں نے اس کا آغاز کیا۔

 


٭…کاروبار صرف ’’اعتبار‘‘ کا نام ہے، ’’کریڈیبلیٹی‘‘ کا نام ہے۔ آپ کے پاس کروڑوں روپے ہوں، مگر لوگوں کو آپ پر اعتماد نہ ہو تو یہ سب کچھ بے کار ہے ٭…اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ تاکہ کاروبار میں کہیں اونچ نیچ ہو جائے تو آپ اپنا اور دوسروں کا نقصان نہ کر بیٹھیں، یہ بہت بنیادی اصول ہے ٭

سب سے پہلے مڈل ایسٹ سے آئرن اسکریپ اور ایلومینیم وغیرہ منگوانی شروع کی۔ اس میں مجھے ایک حد تک کامیابی ملی۔ کاروبار اگرچہ زیادہ بڑا نہیں تھا، لیکن مجھے کافی فائدہ ہوا۔ بینک سے کچھ سہولیات مل گئیں۔ کیونکہ درآمد کرتے ہوئے ’’ایل سی‘‘ وغیرہ کے مسائل ہوتے ہیں تو مجھے ان حوالوں سے کچھ سہولت مل گئی۔ میں مڈل ایسٹ جاتا اور یہ لوہا خرید کر لاتا۔ اللہ تعالی نے لوہے کے کام میں یوں بھی برکت رکھی ہے۔ اس بنیادی کامیابی سے مجھے حوصلہ ملا اور میں اس سے بہتر کاروبار کے بارے میں سوچنے لگا۔ انہی دنوں میں نے یہ کمپنی قائم کر لی۔ یہ الحمد للہ! 1987 ء سے قائم ہے۔ اس دوران یہ ہوا کہ مارکیٹ میں لوہے کے ایسے بیوپاری آ گئے جو نا جائز طریقوں سے کاروبار کرنے لگے۔ ہم ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ ہم ’’اسکریپ‘‘ کو اسکریپ کے طور پر ہی لے آتے تھے۔ جب کہ وہ لوگ اسکریپ کو کسی اور عنوان سے فروخت کرنے لگے۔ اس مرحلے پر یہ ذہن میں آیا کہ پلاسٹک کا کام شروع کیا جائے۔ یہ صاف ستھرا کام ہے۔ گلنے سڑنے کا بھی اندیشہ نہیں۔ باقی نفع نقصان تو ہر کاروبار میں ہوتا ہی ہے۔ اس کی ایک کھپت ہے جو نہ صرف رہے گی، بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ سوچ کر رفتہ رفتہ اس کاروبار کی طرف آنے لگا۔ پہلے پہل میں خود ہی خرید کر لاتا تھا۔ پھر جاپان اور سعودی عرب کے تاجروں کی ایجنسی مجھے مل گئی۔ یوں میں اُن کا پاکستان میں ڈسٹری بیوٹر بن گیا۔ اسی طرح انڈیا سے بھی ہم نے اس خام مال کا کام کیا ہے۔ آہستہ آہستہ مزید راستے کھلنے لگے۔ کچھ ایسے آپشن سامنے آئے کہ ہمیں اس میں ابتدا سے ہی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اُن سے خرید کر آگے فروخت کر دیتے اور پھر ادائیگیاں وغیرہ بآسانی کر لیتے۔

الحمد للہ! محنت شروع سے اچھی تھی۔ کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ کسی سے زیادتی نہیں کی۔ کوشش کی کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ الحمد للہ! 20 سال سے زائد عرصہ ہو گیا، جن جن لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑا، ان میں سے کسی کو بھی کوئی شکایت آپ کو سننے کو نہیں ملے گی۔

شریعہ اینڈ بزنس
آپ کی کمپنی کس نام سے ہے اور کیا کیا کام کر رہی ہے؟


ابراہیم کسُمبی
’’عمیر پیٹروکیمیکلز پرائیوٹ لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ہماری کمپنی کام کر رہی ہے۔ یہ میرے بیٹے کے نام پر ہے۔ ہماری درآمد متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈیا، کوریا، سنگاپور اور جاپان سے ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار اور ملکوں سے بھی ہو جاتی ہے۔ تاہم بنیادی طور پر انہی چھ ممالک سے کام ہو رہا ہے۔ ان کے بننے والی پٹرولیم پروڈکٹس اور خام مال ہم پاکستان میں درآمد کرتے ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
’’پٹرولیم پروڈکٹس‘‘ کا دیگر قسموں کے کاروبار سے کس طرح فرق ہے؟ اس کے خصوصی فوائد کیا ہیں؟

ابراہیم کسُمبی
ہر کاروبار کے اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں اور اپنے فوائد بھی ہوتے ہیں۔ یہ دیگر چیزوں سے اس طرح مختلف ہے کہ مثال کے طور پر آپ کھانے پینے کی چیزیں منگوا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں گلنے سڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں بہر صورت ایک خاص وقت کے اندر اندر فروخت کرنا پڑتا ہے۔ ان میں قیمتوں کا استحکام (Stability) کم ہوتا ہے۔ جب آپ کو کھانے پینے کی چیزیں بہر حال فروخت کرنا ہوتی ہیں تو اس میں نقصان بھی اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ ان چیزوں کو ذخیرہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص جب کہ دین میں بھی ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ کی ممانعت ہے۔ پلاسٹک ایسی چیز نہیں ہے۔ یہ پانچ سال بھی پڑا رہے تو خراب نہیں ہوتا۔ اس کی قیمت کبھی گر بھی جائے اور آپ اسے محفوظ کر لیں تو گھوم پھر کر قیمت دوبارہ وہیں آ جائے گی اور آپ خسارے سے بچ جائیں گے۔ اس کاروبار کی بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اس کا بازار مستحکم ہے۔ اس کا ایک بڑا استعمال فیکٹریوں میں ہے۔ جہاں روز مرہ استعمال کی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ گاڑیوں میں یہ 30 فیصد لگتا ہے۔ لوہے اور ایلومینیم کی طرح گاڑیوں میں پلاسٹک کا استعمال بھی بہت ہے۔ جو لوگ اس کے کاروبار سے منسلک ہیں، انہیں اس سے متعلق ایک ایک منٹ کی معلومات رکھنی پڑتی ہے۔ اسے دیکھنا ہوتا ہے خام تیل کی قیمتیں اس وقت کیا ہیں؟ دیگر ممالک کی کرنسی کی ویلیو پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ فارن ایکسچینج کی وجہ سے اس پر بڑا فرق پڑتا ہے۔ یعنی اس کے نرخ انہی وجوہ سے نیچے اوپر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ معلومات رکھنے سے کسی بڑے نقصان سے آدمی بچ سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ اپنے کسٹمرز کو اس سے متعلق مفید مشورے بھی دینے ہوتے ہیں۔ آیا وہ اس وقت اسے خریدیں یا نہ خریدیں؟ خریدیں تو کتنا خریدیں؟ ان کی ضرورت کا آپ کو ادراک ہونا چاہیے، مثلاً: ایک فیکٹری میں کم از کم تین مہینے کا مال موجود ہونا چاہیے۔ اسی حساب سے آپ اپنے کسٹمرز سے رابطے میں رہ کر اس کی ضرورت کے مطابق مال پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

اسی کاروبار میں سیزن کے لحاظ سے بھی فرق آتا ہے۔ یہ پلاسٹک بھی 50,40 قسم کی آتی ہے۔ یہ مختلف مصنوعات میں مختلف انداز میں لگتی ہے۔ اگر ایک چیز کی آج زیادہ کھپت ہے تو اگلے کسی مہینے میں کم ہو جائے گی۔ اس قسم کے عوامل پر آپ کو بڑی گہری نظر رکھنی ہوتی ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کاروبار کے ساتھ گزر چکا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کس چیز نے آپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا؟ مثلاً: کن اصولوں پر آپ نے زندگی بھر سختی سے عمل کیا اور کن مواقع سے آپ کو اہم تجربات حاصل ہوئے؟

ابراہیم کسُمبی
ایک چیز ہے: زبان اور سودے پر قائم رہنا یعنی نفع و نقصان سے قطع نظر۔ دوسرے: جھوٹ نہ بولنا، غلط معلومات نہ دینا۔ تیسرے یہ کہ لوگ آپ کی بات کو سمجھیں اور آپ کی منشا کے مطابق اسے لے لیں، اس پر بڑا وقت لگتا ہے۔ بڑا صبر چاہیے اس کے لیے۔ ایک وقت کے بعد لوگ آپ کو بار بار آزما چکے ہوتے ہیں اور آپ کی زبان پر ان کو اعتبار آ چکا ہوتا ہے۔ پھر آپ کی عزت اور ساکھ بنتی چلی جاتی ہے۔ یوں آپ کا ’’اعتبار‘‘ بن جاتا ہے۔

یاد رکھیے! کاروبار صرف ’’اعتبار‘‘ کا نام ہے، ’’کریڈیبلیٹی‘‘ کا نام ہے۔ آپ کے پاس کروڑوں روپے ہوں، مگر لوگوں کو آپ پر اعتماد نہ ہو تو یہ سب کچھ بے کار ہے۔ آپ کی ساکھ اتنی ہونی چاہیے کہ آپ کے حالات خواہ جیسے بھی ہوں، لوگ آپ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ ان کا آپ کے ساتھ رابطہ ہو اور آپ سے کاروباری رشتہ ہمیشہ قائم رکھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے اندر اتنا مالی استحکام آ جاتا ہے کہ چھوٹے موٹے مسائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

چوتھی اہم ترین چیز یہ ہے کہ آپ کو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہییں۔ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ تاکہ کاروبار میں کہیں اونچ نیچ ہو جائے تو آپ کسی دوسرے کا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ اور تاکہ آپ، لوگوں تک ان کی امانتیں صحیح طور پر پہنچا سکیں۔ یہ بہت بنیادی اصول ہے۔ پانچویں: اپنی کاروباری صلاحیت اور علم بڑھاتے رہیں۔ آپ کو کاروبار کا وسیع علم ہونا چاہیے۔ جتنا زیادہ آپ کو اس کاروبار کا علم ہوتا ہے، اتنا ہی نقصان کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اتنا ہی آپ لوگوں کو بہتر طور پر رہنمائی بھی دے سکتے ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
ہمارا یہ میگزین پورے پاکستان میں بزنس کمیونٹی تک پہنچایا جاتا ہے۔ بہت سی بڑی کمپنیوں میںیہ باقاعدگی سے پڑھا جاتا ہے، بلکہ بعض جگہوں پر افسران اسے خرید کر اپنی کمپنی کے افراد میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں فون کر کے بتایا کہ ہمیں کاروبار کے مختلف شعبوں اس کے ذریعے سے متعلق بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ اس کے پیش نظر آپ سے درخواست ہے کہ کاروبار میں نقصان عموماً کیوں ہوتا ہے؟؟ جب ایسا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ اس طرح یہ کہ ’’سود‘‘ کا کاروبار میں کیا کردار ہے؟ اس حوالے سے چند واقعات سنا دیجیے، تاکہ سبق حاصل ہو۔

ابراہیم کسُمبی
بغیر کسی کمپنی یا شخصیت کا نام لیے بتاتا ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو طویل عرصہ کاروبار سے منسلک رہے، بڑے پیمانے پر کام بھی کیا، مگر حالات کی اچانک تبدیلیوں کی وجہ سے وہ ختم ہو کر رہ گئے۔ مارکیٹ سے ان کا وجود ختم ہو گیا۔ ایسے مرحلے میں انہوں نے دیانت داری سے اپنے سارے اثاثے اپنے قرض خواہوں کے سامنے رکھ دیے۔ بتا دیا کہ میرے پاس یہی کچھ ہے، آپ جو چاہیں سلوک کریں۔ ان کی اس ایمان داری کی وجہ سے لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا، انہیں معاف کر دیا۔ پھر ہم نے انہی لوگوں کو آہستہ آہستہ دوبارہ ابھرتے دیکھا۔ مسلسل محنت اور غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہوں نے دوبارہ پہلے جیسی پوزیشن حاصل کر لی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے، پہلے سے بہتر حالت میں آ گئے۔ وجہ یہ کہ ان کی نیت صاف تھی۔

سود کے حوالے سے یہ عرض کروں کہ اس وقت پوری دنیا اس کی لپیٹ میں میں ہے۔ ماضی قریب میں اس کے متبادل کے لیے کاوشیں ہوئی ہیں۔ سود سے بچنا ضروری ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بغیر سود کے بہت بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ اللہ نے ان کے کام میں برکت دی۔ لیکن کبھی انسان اس میں پھنس جاتا ہے، لہذا اپنی پوری کوشش ہونی چاہیے جس حد تک اسے سے بچا جا سکے، بچا جائے۔ اب دنیا بڑی حد تک غیر سودی بینکوں کو اختیار کر رہی ہے۔ بہت سے مغربی ممالک نے بلا سود بینکاری فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔ انہوں نے ایسی اسکیمیں دی ہیں اگر آپ سود بچنا چاہتے ہیں تو ’’مشارکہ‘‘ اور ’’مضاربہ‘‘ جیسے کنسپٹ کو اختیار کر لیں۔ لہذا اب سود سے بچنا کچھ مشکل نہیں رہا۔ (جاری ہے)