یہ ایک چھوٹی سی کمپنی کی کہانی ہے۔ کاروبار لاکھوں میں تھا۔ پاکستان میں جس طرح دیسی انداز میں لکھت پڑھت اور گوشوارے بنائے جاتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی کام ہوتا تھا۔ کمپنی نے ایک منشی رکھا تھا جو روزانہ کی فروخت کا ریکارڈ رکھتا۔ کمپنی کامیابی کے زینے طے کرتی گئی۔ مگر اچانک شک کے کانٹے اگنے لگے۔ کمپنی مالکان کو شبہ ہوا کہ ہمیں اپنی پروڈکٹ کی قیمت نہیں مل رہی۔ کمپنی سامان زیادہ تیار کرتی ہے اور پیسوں کی وصولی کم ہوتی ہے۔ تمام بروکروں کے کھاتے دیکھے گئے، مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ سب بروکر وقت پر پیسہ ادا کررہے تھے۔ کمپنی نے ملازمین کی نگرانی شروع کی مگر کوئی سراغ نہ ملا۔
مال زیادہ تیار ہوتا ہے، جتنا مال بکتا ہے، اس کے پیسے بھی مل جاتے ہیں تو مسئلہ کہا ں ہے؟؟ مالکان ایک بار پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ مصنوعات کی تیاری سے لے کر فروخت تک ایک ایک چیز کی نگرانی شروع ہوئی۔ اچانک ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ پتا چلا کمپنی کا تنخواہ دار منشی چند بروکرز کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ منشی زیادہ سامان دیتا ہے مگر گوشوارے میں کم لکھتا ہے۔ بعد میں اس سامان کو بیچ کر بروکر اور منشی اپنا اپنا حصہ رکھ لیتے ہیں۔ کمپنی نے منشی اور بروکرز کے خلاف آواز اٹھائی۔ جھگڑا بڑھا تو لوگوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن کے دفتر چلے جائو۔ دفتر میں جاکر مصالحت کروانے کی بات طے ہوئی۔ دونوں سے مسئلہ سنا گیا۔ دس پندرہ دن لگے۔ کمپنی مالکان اس پر برافروختہ تھے کہ ان کے منشی نے بروکرز کے ساتھ ملی بھگت سے چوری کی ہے۔ مالکان چاہتے تھے کہ کروڑوں روپے دیے جائیں۔ منشی اور بروکرز اتنی رقم دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ مالکان کسی طرح بھی ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔ انہیں سمجھایا گیا کہ آپ کے پاس چوری کا کوئی ثبوت نہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی۔ وہ عدالت جاپہنچے۔ وکیلوں کی فیس، کچہریوں کے چکر اور پھر پولیس تک رسائی میں پیسہ پانی کی طرح بہنے لگا۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ثابت کرنا تھا کہ منشی اور بروکرز نے چوری کی ہے، مگر گھاگ منشی نے اپنی چوری کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا تھا۔ کہیں سے ثابت نہ ہوسکا کہ چوری کی گئی ہے۔ ایک سال بعد کئی لاکھ روپے خرچ کرکے بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ آخر کار مصالحتی کمیٹی کا فیصلہ ہی تسلیم کرنا پڑا۔
آپ نے دیکھا کہ کاروباری جھگڑوں میں عدالتی کارروائی سراسر نقصان کا سودا ہوتا ہے۔ پیسہ تیزی سے خرچ ہوتا ہے، مگر نہ حق ملتا ہے اور نہ ہی آپس کے تعلقات بحال رہتے ہیں۔ اس لیے تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ عدالت کے بجائے ’’مصالحت‘‘ کروالو۔ خرچ بھی کم اور آپس کے تعلقات بھی خراب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’الصلح خیر‘‘ یعنی ’’صلح میں تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا اتنا اچھا کام ہے کہ اس کی خاطر جھوٹ بولنے کی بھی اجازت ہے۔ (الاداب الشرعیۃ للمقدسی) ایک دوسری حدیث شریف میں تو دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کو نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی بڑا کام قرار دیا گیا ہے۔ (حوالہ بالا)
مصالحت کا صرف یہ فائدہ نہیں کہ آپ کے اخراجات بچ جاتے ہیں،بلکہ اس کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ عدالتی طریقہ کار میں جس مسئلے پر سالہا سال لگتے ہیں، وہ مسئلہ ایک دن میں حل ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں کراچی میں پیش آیا۔ کراچی کی ایک کمپنی نے دبئی کی کسی کمپنی سے معاہدہ کیا۔ دونوں کمپنیوں کے درمیان طے پایا کہ کراچی سے سامان برآمد کریں گی۔ ابتدا میں تو چار پانچ بار سامان کراچی سے روانہ ہوا اور دوسرے ملک میں موجود گاہک تک پہنچ گیا۔ مگر اس کے بعد سے لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ سامان تاخیر سے جانے لگا۔ تاخیر کی ذمہ داری ایک کمپنی دوسری پر ڈالتی اور دوسری کمپنی پہلی پر۔ سامان جاتا رہا اور شکایتیں بڑھتی چلی گئیں۔ آخر ایک دن یہ پارٹنر شپ ختم ہوگئی۔ دونوں کمپنیوں نے ایک دوسرے کے خلاف شکایتوں کے دفتر کھول لیے۔ دونوں سندھ ہائی کورٹ پہنچے اور ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا مقدمہ درج کروادیا۔ عدالتوں کے چکر شروع ہوئے اور پیسہ مٹھی سے پھسلنا شروع ہوگیا۔ چار سال گزر گئے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اسی دوران کسی نے فریقین کو سمجھایا کہ اگلے دس سال بھی عدالتوں کے چکر لگاتے رہو تو یہ مسئلہ حل ہونے کا نہیں۔ کسی مصالحت کار سے جاکر آپس میں صلح کرلو۔ دونوں کراچی کے ایک مصالحتی ادارے پہنچے اور اپنا مسئلہ سنایا۔ مصالحت شروع ہوئی اور یقین کیجیے صرف 12 گھنٹے میں مسئلہ ختم ہوگیا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے گلے لگے اور ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا مقدمہ حل ہوگیا۔
آپ پاکستان کا عدالتی نظام دیکھیں کہ اگر فریقین عدالتوں کے چکر لگاتے تو اتنے بڑے مسئلے کا فیصلہ کم از کم آٹھ سے دس سال میں آتا ہے۔ اگر فیصلے کے خلاف اپیل ہوجائے تو پھر یہی مسئلہ اگلی نسل تک منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کاروباری مسئلے کا بہترین حل مصالحت کروانا ہے۔
مصالحت کا طریقہ کار کوئی پیچیدہ بھینہیں، جب فریقین کسی ادارے کے پاس مصالحت کے لیے پہنچتے ہیں تو دونوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ مصالحت کرانے والا دونوں کے الزامات سنتا ہے اور پھر دونوں کو رفتہ رفتہ اپنی غلطیاں تسلیم کرواتا ہے، جب دونوں فریق اپنی اپنی غلطیاں مان چکے ہوتے ہیں، پھر ان کو مسئلہ حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ نے صلح میں بھلائی ہی بھلائی رکھی ہے۔ اس لیے فریقین کسی نہ کسی متفقہ نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح آپس کے تعلقات بھی خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں اور مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل ہوجاتا ہے۔
مصالحت کے فوائد
٭ اخراجات بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ٭اس کا طریقہ کار بہت بااخلاق اور معیاری ہوتا ہے ٭ تمام معلومات خفیہ رہتی ہیں اور کاروباری راز محفوظ رہتے ہیں ٭آپس کے تعلقات متاثر نہیں ہوتے اور دوستی برقرار رہتی ہے٭تمام کاروباری روایات اور اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے٭مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجاتا ہے ٭ بہت کم وقت میں مسئلہ حل ہوجاتا ہے