’’ملاوٹ‘‘ کسی بھی اصل چیز میں اُس جیسی کسی نقلی چیز کو اس لیے ملایا جائے تاکہ اصل کے برابر نقل چیز کا بھی فائدہ ہو۔ یہ کام آج کل مسلمان تجارت پیشہ حضرات بھی کر رہے ہیں۔ حرام کو حلال میں ملانا بھی جرم ہے۔ ا للہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اُن قوموں کی تباہی کا ذکر فرمایا ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے تھے اور ملاوٹ میں ملوث تھے۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اناج کا ڈھیر لگا ہے۔


٭… اگر لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ کے گناہ میں کسی حد تک شامل ہیں

جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ ڈال کر دیکھا تو اناج گیلا تھا، جیسے اس میں پانی ملا دیا گیا ہو۔ اس پر آپ نے سخت تنبیہ فرمائی تھی۔

عیب چھپا کر مال فروخت کرنا، کم تولنا، کم ناپنا یہ ایسے اُمور ہیں، جن کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ آج کا تاجر اگرچہ مسلمان ہے اور اُسے ان چیزوں کی برائی کا علم بھی ہے، مگر وہ یہ سب کام کر رہا ہے۔ اُسے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ اُس کی ملاوٹ سے عوام کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے: جس کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ جاتا ہے تو اس کے تمام اعضا گناہ میں ملوث ہوتے ہیں اور وہ جسم جہنم کے قابل ہے۔

تاجر حضرات نہ جانے لوگوں کو کیا کیا حرام اور حلال ملا کر کھلا رہے ہیں۔ بہت سے کیمیکل ایسے ہیں جن کو غذاؤں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا تو اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ کون سے کیمیکل غذا یا دوسری قابل استعمال اشیا میں استعمال کرنے چاہییں اور وہ حلال بھی ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے بعض ادارے، جیسے: ’’حلال فاؤنڈیشن‘‘ ایک فعال ادارہ ہے۔ جو ہر آن تاجروں کی رہنمائی میں پیش پیش ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ مستجاب الدعوات ہو جائیں تو پھر حرام کا کوئی لقمہ اپنے پیٹ میں نہ ڈالیں۔ آج کل حرام اور حلال کی ملاوٹ عام ہو گئی ہے۔ حلال میں حلال ملانا یہ بھی ایک عام عمل ہے۔ ان سب محرکات میں تاجروں کا ذاتی ناجائز منافع شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ تاجر کی جہالت بھی معاشرہ کو لے ڈوبتی ہے۔

حکومت اور اُن کے احکام بھی ملاوٹ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب حکام اپنے احکامات کو بازاروں اور منڈیوں پر لاگو نہیں کر پاتے تو یہ سب غلط کاری ہوتی ہے۔ معاشرہ بہت سے افراد اور ان کے احوال کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ میں کسی حد تک شامل ہیں۔ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ اناج میں پانی، مٹی، کنکر اور روڑے ملائے جاتے ہیں۔ غذاؤں میں حرام کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔ اصلی گھی، شہد حتیٰ کہ لال مرچ تک خالص نہیں مل پاتی۔

ان گنت اشیا میں ملاوٹ ہو رہی ہے، جس میں انسانوں کی صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ آج ملک میں خالص اور صاف پانی تک میسر نہیں۔ ذمہ دار حضرات کا فرض ہے کہ وہ معاشرے میں ان اُمور کو ختم کرنے کے لیے تن من دھن سے سعی کریں۔ اچھے تاجر کا ذکر بھی حدیث پاک میں ہے کہ ایسے تاجر کا حشر انبیاء صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔

ضروری اشیا کو ملاوٹ سے پاک کرنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملک میں مٹھائی سے لے کر دوائی تک غلط اشیا کی ملاوٹ نے تاجروں کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ عوام جن کے ہاتھ میں ایک اختیار ہے کہ اُن کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر حال میں وہی کھانا پڑتا ہے، جو بازار میں میسر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے کردار میں اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ زہر کو زہر جانتے ہوئے بھی کھا رہے ہیں؟

ہمارے سامنے سعودی عرب کا معاشرہ بھی ہے، وہ بھی مسلمان ہیں اور ان کے ہاں نہ صرف اشیائے خوردنی سستی ہیں، بلکہ خالص بھی ہیں۔ وہاں صاف پانی کے کارخانے جگہ جگہ موجود ہیں۔ اگر کسی جگہ سے ملاوٹ شدہ سامان آنے کی خبر ہوتی ہے تو وہاں کے حکام ایسی برآمدات کو ختم کر دیتے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ایسا کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی ہر حال میں اپنے معاشرے کو ملاوٹ سے پاک کرنا چاہیے۔ آج لوگوں میں دین سے اس قدر دوری ہے کہ اکثر لوگ علمائے کرام سے باغی ہیں۔ معاشرے کو بعض عناصر اس ڈگر پر لا رہے ہیں، جس کو فری لائف(آزاد منش) کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے اپنے مفادات ہیں، مگر اچھے مسلمانوں کی بھی کمی نہیں، جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اچھی کاوشوں کو جاری رکھیں اور نہ صرف ملاوٹ سے پاک غذا فراہم کریں بلکہ ہر چیز میں جہاں بھی جائز چیزوں کی ملاوٹ ہو، اُس کو بھی ختم کریں۔

یہ دین میں جو کہ اللہ نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے لوگوں کو دیا، شیطان کے چیلے نت نئی ملاوٹوں کے طریقے اپنا رہے ہیں۔ اگر شیطان کے چیلے اتنی کوشش کر سکتے ہیں تو یقینی طور پر رحمن کے بندوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دین، معاشرے اور اپنی استعمال کی چیزوں کو ملاوٹ سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔