حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کسی کو قرضہ دیتے تھے تو اس کی دیوار کے سائے میں سے بھی نہیں گزرتے تھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چھاؤں کی ٹھنڈک سے تھوڑی دیر کے لیے راحت مل جائے اور میں قرض کے ذریعے کسی طرح کا فائدہ حاصل نہ کر بیھٹوں! امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس عمل کی وجہ آخر کیا تھی؟ وہ کیوں اتنی تکلیف گوارا کرتے تھے؟


٭…’’کاسٹ آف منی‘‘ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے پاس جو پیسہ مثلاً سو روپے ہمارے پاس ہیں، یہ صرف سو روپے ہی نہیں، بلکہ ان کے ساتھ چار چیزیں اور بھی ہیں: وقت،موقع، رسک اور افراط زر

کیا کسی قرض دار کی دیوار کے سائے سے واقعی خود کو بچانا ضروری ہے؟ جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا ضروری تو نہیں، لیکن جس انسان کے علم میں سود کی اتنی شدید مذمت ہو، قرآن و حدیث کی سود کے بارے میں اتنی سخت وعدیں ہوں، وہ احتیاط کی وجہ سے سود یا سود کے مشابہ چیزوں کے قریب بھی جانے سے ڈرے گا۔ اسے جس چیز میں سودکی بُو بھی محسوس ہو گی، اس سے خود بخود نفرت ہو جائے گی۔

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’قرض کی بنیاد پر کوئی بھی فائدہ حاصل ہو جائے تو سود ہی شمار ہو گا۔‘‘ علمائے کرام فرماتے ہیں اس فائدے سے مراد مالی فائدہ ہے، غیر مالی فائدہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، لیکن پھر بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ احتیاط کے پیشِ نظر ہر طرح کے غیر مالی مفاد سے بھی بچتے تھے۔ سود کی مذمت ان کی نظر میں تھی اور انہیں معلوم تھا کہ سود کا لین دین کرنے والے کے خلاف اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ہر وہ جسم جو حرام (آمدنی) سے پلے بڑھے تو وہ آگ میں جانے کا ہی زیادہ مستحق ہے۔‘‘

یہ تو ہمارے ان اکابر کا عمل رہا جو قرضہ دیتے وقت صرف یہ سوچتے تھے کہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری ہو جائے، بھائی چارگی کا حق تھوڑا بہت ادا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ اب ذرا اپنے بارے میں سوچتے ہیں! کسی کو قرضہ دیتے وقت ہمارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟ ہم سوچتے ہیں اس قرضے کے فوائد چاہے قرضہ لینے والے کو ہوں یا نہ ہوں، لیکن خود ہمیں کتنے حاصل ہوں گے، جب واپس لیں گے تو کتنا لیں گے؟ اس سلسلے میں لوگ مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اللہ کو شدید ناراض کرنے والی ہے، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار منع فرمایا ہے، ہم نہ صرف اس کے کرنے میں مبتلا ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ کرنے کے مختلف طریقے ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔

موجودہ دور کی ایک مشہوراصطلاح ’’Cost of money‘‘ ہے۔ اس کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے پاس جو پیسہ مثلاً سو روپے ہمارے پاس ہیں، یہ صرف سو روپے ہی نہیں، بلکہ ان کے ساتھ چار چیزیں اور بھی ہیں:

1 وقت
صارف اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ پیسے آج ہی خرچ کرنے کے لیے مہیا ہوں۔ پیسوں کا آج مہیا ہونا ان پیسوں میں ایک اضافی خصوصیت شمار ہوتی ہے۔ اگر یہی پیسے کسی کو قرض دینے ہوں تو باقاعدہ اس اضافی خصوصیت کو مدّنظر رکھ کر دیے جاتے ہیں۔ گویا قرض دینے والے نے ایک نہیں بلکہ دو چیزیں قرض دی ہیں، تاکہ کل اپنا قرض بھی واپس لے اور یہ اضافی خصوصیت بھی (پیسوں کی شکل میں) واپس لی جا سکے۔

2 پروڈکشن اپورچونیٹی (Opportunity)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پیسہ ہم کسی کو دے رہے ہیں، اسے اگر ہم خود ہی کسی پیداواری عمل میں لگاتے تو ہمیں نفع مل سکتا تھا۔ یہاں بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گویا ہم قرضہ لینے والے کو دو چیزیں دے رہے ہیں، اسی لیے جب واپس لیں گے تو دو ہی لیں گے۔ حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خود پیداواری عمل میں لگاتے تو نفع کے بجائے نقصان ہو جاتا۔

3 رِسک
رسک کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم جس انویسٹر کو پیسہ دے رہے ہیں وہ کامیابی سے اسے خرچ نہ کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیں اس پر یا تو بہت کم نفع ملے یا الٹا نقصان ہو جائے۔ اب چونکہ ہم یہ رسک بھی لے رہے ہیں، اس لیے ہمیں واپسی میں اس رسک لینے کا بھی کچھ معاوضہ ملنا چاہیے۔ یہاں پر وہ یہ نہیں سوچتا کہ رسک کا نتیجہ صرف کم نفع ہونا یا نقصان ہو جانا نہیں، بلکہ جتنا زیادہ رسک ہو گا اتنے ہی زیادہ تناسب سے نفع بھی ملے گا۔

4 افراطِ زر (Inflation)
یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پیسے کی قدر وقت کے ساتھ ساتھ گر رہی ہے۔ آج جو پیسے ہم دے رہے ہیں، کل اس کی قدر کم ہو گئی ہو گی، لہٰذا ہم زیادہ وصول کریں گے۔ حالانکہ واضح سی بات ہے کہ اگر کل تک یہ پیسے اپنے پاس بھی پڑے رہیں گے، تب بھی اس کی قدر کم ہونی ہی ہے۔

تاجر حضرات کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ پیسوں کو اپنے پاس رکھیں اور قرضے نہ دیں تو ان کا سارا کام ہی رک جائے گا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو قرضے ملنا بند ہو جائیں گے اور اس طرح بہت سے کاروبار بند ہو جائیں گے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی انویسٹمنٹ کے بہترین طریقے اپنے عروج پر ہیں۔ سود جیسی لعنت سے بچنے کے لیے اگر ہم تھوڑی سی ہمت کر کے اپنی سرمایہ کاری کا طریقہ بدلیں تو یہ ہماری آخرت کے لیے بھی اچھی انویسٹمنٹ ہو گی اور دنیا کے کاروباری نقصانات سے بھی ضرور بچیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دوستوں کا نقصان نہیں ہونے دیتا۔ کاروباری دنیا کے ذہین انویسڑز سے درخواست ہے کہ انوسٹمنٹ کی اس نئی قسم کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیں۔