کھیل کا میدان ہو یا تجارت کا۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی مقابل موجود ہوتا ہے۔ فٹ بال کے میدان میں ایک ہی شخص موجود ہو اور مسلسل گول پر گول کرتا چلا جائے۔ اسے کھلاڑی شمار کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس کے کیے ہوئے گول کی کوئی قیمت ہو گی۔ اس لیے کہ یہاں کوئی مقابل موجود تھا، نہ ہی وہ کسی امتحان یا دشواری میں پڑا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے اور پھر دیکھنے میں آتا ہے کہ کبھی کبھی پورے میچ میں کوئی گول نہیں کر پاتا۔ اگر کر بھی لے تو اُس کے لیے قانون کے مطابق ہونا ضروری ہوتا ہے۔


٭…ہمارا دین تجارت میں ’’سچائی‘‘ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی کو ہم نے پس پشت ڈال دیا، جب کہ غیر مسلم اقوام نے اس پر عمل کرتے ہوئے اس سے خوب فائدہ اٹھایا

اسی طرح دنیا کے دیگر میدانوں میں ہوتا ہے، جن میں سے ایک اہم میدان مارکیٹ (Market Competition) ہے۔ یہاں بہت سی کمپنیاں کام میں مصروف ہوتی ہیں اور نئی سے نئی پروڈکٹ اور طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ہر کمپنی آگے بڑھنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ جو کمپنی بھی سُستی دکھاتی ہے، وہ مارکیٹ سے باہر ہو جاتی ہے۔

اب اہم بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں کون سی کمپنی حلال و حرام کا خیال رکھتی ہے اور کون سی نہیں؟ وجہ یہ ہے کہ مقابلہ اس وقت ہوتا ہے جب مقابل موجود ہو اور آپ قانون کے مطابق چلتے ہوئے جیت جائیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ قانون کی خلاف ورزی بھی ہو اور جیت بھی ہو۔ باقی مثبت سوچ و فکر اور عمل کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک بہتر عمل ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے۔ مقابلے کی وجہ سے معیار اور مقدار میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ بہترین چیز ہے۔ اس سے لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔ لوگ بآسانی پروڈکٹ حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں وغیرہ… لیکن! ان سب فوائد کے باوجود قانونی تقاضے کو پورا نہ کیا جائے تو نتیجہ نقصان میں نکلے گا۔ وقتی فائدہ تو مل جائے گا لیکن بالآخر نقصان ہی ہو گا۔ اس کی بہت سی واضح مثالیں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ جہاں جھوٹ اور دھوکہ دہی وغیرہ کے واقعات آئے روز ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے اور نقصان بھی۔ ان میں سے بھی پھر واقعات معمول کی حد تک مشہور ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں۔ انہوں نے ایک عجیب واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ کسی کپڑے والے کی دوکان پر گئے۔ انہوں نے خواتین کے کپڑے خریدنے تھے۔ انہوں کہا: ’’دوکاندار شکل سے کافی اچھا انسان نظر آ رہا تھا۔ میرے کہنے پر دوکاندار نے مختلف قسم کے کپڑے دکھائے۔ ان میں سے بہترین کپڑا میں نے منتخب کیا اور قیمت پوچھی دوکاندار نے پانچ ہزار قیمت بتائی۔ میں نے رضامندی کا اظہار کیا اور پلاسٹک کے تھیلے میں دینے کو کہا۔ جب دوکاندار تھیلے میں کپڑا پیک کر رہا تھا تو میں نے کہا: ’’تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ! میں ذرا ایک سنت پوری کر لوں۔ وہ یہ کہ میں تین دوکانوں سے پوچھ لوں پھر آ کر وصول کرتا ہوں۔‘‘ جب میں جانے لگا تو دوکاندار نے آواز دی: ’’سنو! ساڑھے تین ہزار دو گے‘‘ میں ذرا ٹھہرا اور حیران ہوا کہ ابھی تو اس نے پانچ ہزار قیمت بتائی تھی… بہر حال! آگے بڑھا تو پھر آواز دی: ’’سنو! آپ دو ہزار دے دیں۔‘‘ میں اور بھی حیران ہوا، آگے بڑھا اور دوسری دوکانوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہی کپڑا ایک دوکان پر ڈیڑھ ہزار میں فروخت ہو رہا تھا۔‘‘

اب دیکھیں! پانچ ہزار سے ڈھائی ہزار تک آنا اور پھر دوسری دوکان پر ڈیڑھ ہزار قیمت پر ملنا، یہ سب جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب کو صاف ظاہر کر رہا تھا۔ یہ ہمارے ملک کی مارکیٹ ہے۔ یہاں اصل قیمت نہیں بتائی جاتی۔ اسی وجہ سے ہماری مارکیٹ میں اعتماد کی فضا ختم ہو چکی ہے۔ لوگ یہ سوچتے ہیں شاید! اس طریقے سے ہم ترقی کی منازل عبور کرتے چلے جائیں گے اور مارکیٹ میں اپنے آپ کو برقرار رکھ سکیں گے۔

ہمارا دین تجارت میں ’’سچائی‘‘ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی کو ہم نے پس پشت ڈال دیا، جب کہ غیر مسلم اقوام نے اس پر عمل کرتے ہوئے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی ہر پروڈکٹ پر قیمت متعین کر کے لکھ دی۔ اب وہ اس قیمت میں کوئی ردو بدل نہیں کرتے۔ اس کا فائدہ خود ان کو پہنچا۔ یہی وجہ ہے انہوں نے بڑی مارکیٹوں پر قبضہ کر لیا۔ دنیا کی معیشت ان کے اشاروں پر چلنے لگی۔ پوری معیشت پر ان کا قبضہ ہو گیا، حتی کہ ہم اُن کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ ہم نے ذاتی اور وقتی منافع کی خاطر اپنے ملک اور دین کو بد نام کیا۔ اپنے اعتماد کو گنوایا۔ اپنی تجارت کو ایسا نقصان پہنچایا کہ ہماری نسلیں بھی اچھے الفاظ میں ہمیں یاد نہیں کریں گی۔

یہ سب کچھ اسلامی اصولوں کو چھوڑنے سے ہوا۔ آج بھی اگر ہم نئے عزم کے ساتھ اسلامی اصولوں کو اختیار کریں، محنت، لگن اور سچائی کے ساتھ کام کریں تو کامیابی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر ہم تجارت کے ذریعے لوگوں کو متاثر کریں اور مذہب اور ملک کو فائدہ پہنچائیں۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تجارت کی، ان کے بعد کے مسلمانوں نے اسی کو اپنا منشور بنایا۔ یہاں تک کہ چین، قسطنطنیہ میں بھی مسلمان تاجروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے ہم سب کو صحیح معنوں میں اچھا مسلمان تاجر بنائے! آمین ثم آمین۔