امانت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے: کسی چیز کو اس کے مستحق تک پہنچانا یا کسی کام کو اس کے درست تقاضوں کے مطابق پورا کرنا۔ قرآن و سنت میں امانت کی ادائیگی اور اس کو صحیح طریقے کے مطابق انجام دینے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مقدّس میں ارشاد ہے: إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا (النسائ: 58) یعنی: ’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں تک ان کی امانتیں پہنچاؤ۔
٭…حدیثِ پاک میں آتا ہے:’’امانت رزق کو کھینچتی ہے۔‘‘ جب امانت میں خیانت اس قدر عام ہو گی تو رزق میں برکت کہاں سے آئے گی؟ ٭
‘‘ نیز امانت میں خیانت کرنے کے بارے میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا إیمان لمن لا أمانۃ لہ‘‘ (المعجم الأوسط، الرقم: 5923) یعنی اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس کے اندر امانت (کی پاسداری) نہ ہو۔
امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہمارے معاشرے میں مشہور یہ ہے کہ امانت صرف ودیعت رکھی گئی چیز کو کہتے ہیں اور اس میں خیانت کرنے والے کو خائن کہتے ہیں، جب کہ شریعت کی نظر میں امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر ایسی چیز امانت ہے جس سے کسی کا حق متعلق ہو اور مالک کی طرف سے اس کی ادائیگی لازم ہو۔ امانت کی چند ایک اقسام درج ذیل ہیں:
زندگی امانت ہے
انسان کے پاس سب سے بڑی امانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی اس کی زندگی ہے۔ زندگی انسان کا بہت قیمتی سرمایہ ہے، جس کی حفاظت اور اس کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق گزارنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُخروی زندگی کا مدار دنیوی زندگی پر رکھا ہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ انسان کو اُخروی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ انسان کی زندگی حیوانات کی طرح نہیں کہ جیسے مرضی چاہو زندگی کے لمحات ضائع کرتے رہو، بلکہ آخرت میں انسان کی زندگی کا حساب و کتاب یقینی امر ہے، جس سے کسی انسان کو مفر نہیں۔
دولت امانت ہے
مال بھی انسان کے پاس امانت ہے۔ جس کے حصول کے لیے انسان اپنی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں خرچ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے ہاتھوں کی کمائی ہے، میں جیسے چاہوں خرچ کروں۔ ہرگز ایسا نہیں! انسان کی یہ سوچ کہ میرا مال ہے، میں نے اس کو اپنے ہنر اور محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس میں کسی کو دخل اندازی کا اختیار نہیں۔ یہ تو قارون کا نظریہ ہے۔ ایک مسلمان کی ہرگز یہ شان نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی سوچ تو یہ ہونی چاہیے کہ مال اللہ تعالیٰ کی عطا اور میرے پاس امانت ہے۔ اس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ ہو گی۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے: قیامت کے دن آدمی کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتے جب تک کہ اس سے یہ سوال نہ کر لیا جائے کہ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ (المعجم الأوسط،الرقم: 7576)
لہذا مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے اسبابِ معاش پر غور کرے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ناجائز ذرائع سے مال کما رہا ہو۔ اسی طرح اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی ملکیت میں موجود مال کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر صحیح اور جائز مصرف پر خرچ کرے، تاکہ کل قیامت کے دن مواخذہ سے بچ سکے۔
ڈیوٹی کا وقت امانت ہے
آج ہمارے ملازم طبقہ میں یہ بہت بڑی کوتا ہی ہے کہ وہ ڈیوٹی کا وقت امانت کے تقاضوں کے مطابق نہیں گزارتے، کوئی مہمان آ گیا تو اس کے ساتھ وقت گزار دیا۔ کوئی ذاتی کام پیش آ گیا تو اس کی تکمیل میں لگ گئے۔ کوئی اور تقاضا سامنے آیا تو ڈیوٹی کے اوقات میں ہی اس کو نمٹانے چلے گئے۔ کبھی بلا وجہ انٹرنیٹ اور فیس بک پر مشغول ہو گئے۔ یہ سب امانت میں خیانت ہے اور کمپنی کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بہت بڑا عذاب ہے کہ گناہ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام ممبران اس خیانت اور گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں اور ابتلائے عام ہونے کی وجہ سے سب اس کو جائز سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسی خیانت ہے کہ اس کا تنخواہ پر بھی اثر پڑتا ہے اور ڈیوٹی کے اوقات کا جتنا وقت اپنی ذاتی مصروفیات میں ادارے کی اجازت کے بغیر صرف کیا گیا اتنے وقت کی تنخواہ لینا ملازم کے لیے جائز نہیں۔ اگر اس وقت کی تنخواہ لے لی جائے تو اس کو واپس ادارے کے اکاؤنٹ میں جمع کروانا ضروری ہے۔
پھر اس کے ساتھ ہمارے ہاں یہ شکوہ بھی زبانِ زد عام ہے کہ رزق میں برکت نہیں، تنگی اور پریشانی ہے۔ جبکہ حدیثِ پاک میں آتا ہے: ’’الأمانۃ تجلب الرزق‘‘ (کنزالعمال: 5490) یعنی:’’امانت رزق کو کھینچتی ہے‘‘ جب امانت میں خیانت اس قدر عام ہو گی تو رزق میں برکت کہاں سے آئے گی؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امانت کی پاسداری کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔