مشہورمغربی مصنف سٹین لی پول نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے: ’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اورکبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضاء تک پہنچے اورحاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔وہ عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھے بلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی تھی وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘
٭… جن راستوں پر چل کر مسلمان تاجردنیاکے مختلف حصوں میں تجارت کرنے جایا کرتے تھے، وہ سب اسلام کے سایہ عاطفت تلے آگئے ٭…انگریزتجارت کی آڑ میں اس ملک کے کلچر،تہذیب ،تمدن ،مال دولت سب کچھ لوٹ کر لے گئے، بلاشبہ ان کو تاجرکی شکل میں ڈاکو کہاجاسکتاہے ٭
ایک اورمستشرق ہیدنے مسلمان تاجروں کی عظمت وکرداراوران کی تبلیغی مساعی پر جن الفاظ سے روشنی ڈالی ہے ملاحظہ کریں:
’’یہ امردلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ دنیاکا نقشہ بتاتاہے کہ جہاں سے مسلمانوں کے تجارتی قافلے گزرتے گئے وہاں آس پاس کی آبادیاںمسلمان ہوتی گئیں۔‘‘
ایک اورمستشرق آرنلڈنے کے قلم سے مسلمان تاجروں کی مدح سرائی بھی سنیے:
’’ان تاجروں کے ساتھ ساتھ داعیانِ اسلام…جو دراصل تاجرہی تھے …مسلمان تاجروں کے متعین کردہ تجارتی راستوں پر پیدل اورسوارچل کر ان علاقوں میں اسلام کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جن راستوں پر چل کر مسلمان تاجردنیاکے مختلف حصوں میں تجارت کرنے جایا کرتے تھے، یعنی حبشہ ،صومالیہ اورافریقہ کے دوسرے ممالک مثلا کینیا، یوگنڈا، تانگانیگاو غیرہ اسلام کے سایہ عاطفت تلے آگئے۔دراصل ان ممالک کی فتوحات شمشیروسناں سے زیادہ مسلمان تاجروں کی صداقت وعظمت کی رہین منت ہیں۔
آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ نے چین کا سفر کیاتواس نے مسلمان تاجروں کا حال یوں بیان کیا: چین کے تمام شہروں میں مسلمانوں کے مکانات تھے اوران کے ہرمحلے میں مسجد تھی جہاں وہ نمازیں اداکرتے تھے ،ونہایت معززاورمحترم تھے۔
اب ذراتصویر کے دوسرے رخ کو بھی ملاحظہ کیجیے کہ غیرمسلموں نے تجارت کے ذریعے کیاکیاکارنامے سرانجام دیے:
1 برصغیر پاک وہندپر سب سے پہلے ولندیزی پھرفرانسیسی اورآخرکارانگریزتجارت کی آڑ میں اس ملک کے کلچر،تہذیب ،تمدن ،مال دولت سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔بلاشبہ ان کو تاجرکی شکل میں ڈاکو کہاجاسکتاہے۔
2 اسلامی ممالک بالخصوص مصر،شام اورعراق وغیرہ پر بھی قبضہ کیااور لوٹا۔ یہی سب کچھ تجارت کی آڑمیں کیا گیا 3 جرمنی نے اسی ہوس میں تجارت کی آڑمیں نوآبادیات قائم کیں،اٹلی نے تجارت کی آڑمیں حبشے کو تہ وبالاکرڈالا
4 فلسطین میں برطانیہ اورمشرق بعید میں چاپان نے جوگل کھلائے وہ تاریخ کا تاریک باب ہیں وہ سب تجار ت ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں
مگر تاریخ کے مطالعے اورمسلمان تاجروں کے بارے میں مستشرقین کے مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان تاجروں کی تابناک تاریخ کے کسی ورق پر کوئی بھی ظالمانہ داستان نہیں ملے گی جس میں تجارت کے ذریعے سے مسلمانوں نے کسی قوم پر ظلم ڈھائے ہوں یا ان کا امن برباد کیاہو،ہاں اس بات کے معترف مستشرقین بھی ہیں کہ مسلمان تاجروں کے کریمانہ اخلاق اورمومنانہ رویے سے متاثرہوکر جن اقوام عالم نے اسلام کی دولت پائی اس میں مسلمان تاجروں کے تاریخی اسفارکو بہت بڑادخل حاصل ہے۔یہ سب تو تاریخ کا حصہ بن چکاہے اوراسے’’ اولئک آبائی فجئنی بمثلھم‘‘(یہ میرے آباواجداد اور اکابر ہیں، ان سا کوئی ہے تمہارے پاس تو لے آؤ) کے جملے میں سمیٹا بھی جاسکتاہے ۔لیکن اس کی روشنی میں ہمیں کیاکرناہے۔ زیرنظرتحریرمیں اپنے قارئین تاجربھائیوں تک وہ دستک پہنچانی ہے۔میں مستشرقین کی مسلمان تاجروں کے بارے میں ذکر کردہ خویباں مختصرادوبارہ شمار کرواتا ہوں، امید ہے کہ اگلی دستک یہ الفاظ خود دے لیں گے:
1 امانت دار،خیانت نہیں کرتے تھے
2 اعلیٰ اخلاق کریمانہ سے متصف تھے
3 جھوٹ اورفریب سے کوسوں دورتھے
4 عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے
5 فراخ دل اورعالی نفس تھے
اگرمارکیٹ میں ہم نے یہ کام کرلیاتومجھے یقین ہے اللہ کی رحمت اورفضل سے بازاروں میں امن وسکون ،محبت اوربھائی چارہ ،رواداری اور ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کی فضا قائم ہوجائے گی ،ان شاء اللہ العزیز۔اپناحصہ ملادیجیے …اس بات کو سوچے بغیر کہ میرے اکیلے کے کرنے سے کیاہوگا۔باقی سب تو نہیں کررہے ہیں ۔