فکری زوال اور اسلام کے ہمہ گیر تصور کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی مرضی کے مطابق اسلام پر عمل کرنے کے لیے اپنی ترجیحات متعین کر لی ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی ایک مثال اسلام کا قانون میراث بھی ہے۔ آج مسلم معاشرے میں اس سے بے انتہا غفلت برتی جا رہی ہے۔ جب بات میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کی آتی ہے تو قسم قسم کی باتیں کی جاتی ہیں، بے شمار عذر بیان کیے جاتے ہیں۔ آنے والی سطور میں ان اعذار کو بیان کر کے ان کی حقیقت واضح کی جائے گی، اس سے قبل شریعت اسلامیہ کے مطابق میراث کی تقسیم کی ضرورت و اہمیت سے متعلق چند باتیں ملاحظہ فرمائیں۔
میراث کی منصفانہ تقسیم کی اہمیت و ضرورت:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: والدین اور قریبی رشتہ دار جو کچھ مال و دولت چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ یہ حصے (اللہ کی طرف سے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔
مذکورہ بالاآیت سے معلوم ہوا :
٭ میراث کے حق دار صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی ہیں٭ میراث کی تقسیم ہر حال میں ہونی چاہیے خواہ مال کتنا ہی کم کیوں نہ ہو٭ آخری ٹکڑا خاص طور پر قابل غور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ مذکورہ حصے جو آگے بیان کیے جائیں گے وہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں لہٰذا اس میں کسی کو بھی اپنی مرضی چلانے کی ضرورت نہیں ہے
اسلامی قانون میراث میں من مانی کرنے کے اسباب و عوامل:
1 غفلت اور اللہ رب العزت کے حضور جواب دہی کے خوف کا فقدان ہے
2 جاہلانہ رسم و رواج
3 ہندو دھرم میں لڑکی کو باپ کی جائیداد میں حصہ نہیں ملتا جبکہ ہمارے معاشرے میں بھی مختلف طریقوں سے لڑکی کو محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگرچہ زبان سے کہا نہیں جاتا
4 بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ باپ کے فوت ہو جانے کے بعد وراثت ماں کے نام منتقل کر دی جاتی ہے، پھر ماں کی وفات کے بعد تقسیم کی جاتی ہے اور ماں زندگی میں اکثرساری جائیداد کے فیصلے بیٹوں کے نام کر کے چلی جاتی ہے۔ ایسے کئی کیسز دارالافتائSCS میں آئے، گویا کہ یوں لڑکی کو وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
جہیز کا غیر اسلامی تصور:
عام طور پر ہمارے معاشرے میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو جہیز کی شکل میں جو کچھ دیتے ہیں وہ وراثت کا بدل ہے، لہٰذا اگر انہیں وراثت میں بھی حصہ دیا جائے تو یہ لڑکوں کی حق تلفی ہو گی۔ کیو ں کہ ایسی صورت میں لڑکیوں کو دو مرتبہ وراثت میں حصہ دینا ہو گا۔ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ سوچنے کی بات ہے کیا باپ اپنے بیٹوں کی شادی بھی اپنے پیسوں سے نہیں کرتا؟ مگر کبھی یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ کسی بیٹے کو وراثت سے اس وجہ سے محروم کر دیا گیا ہو کہ اس کی شادی انہی پیسوں سے کی گئی ہے۔ اگر یہ بات لڑکوں کے سلسلے میں نہیں تو پھر یہ ناانصافی لڑکیوں ہی کے ساتھ کیوں؟
لڑکیوں کا خود حق وراثت سے دستبردار ہو جانا:
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں، بہنیں اپنا حق خود ہی معاف کر دیتی ہیں، لہذا ان کا حصہ مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا واقعی بات ایسی ہی ہے جس طرح کہی جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لڑکیاں اپنا حصہ معاف کرتی نہیں ہیں بلکہ ان سے معاف کرایا جاتا ہے۔ ان کے سامنے کچھ ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جن سے مجبور ہو کر وہ اپنے حق سے دستبردار ہونے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معافی کی رسم صرف لڑکیوں ہی کے ساتھ کیو ںادا کی جاتی ہے؟ کبھی لڑکے بھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حصہ کو معاف کرنے کی جسارت کر کے دکھائیں۔کبھی چند جوڑے کپڑے وغیر ہ دے کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے اس کی جو جائیداد لے رکھی ہے، اس سے وہ اس جیسے لاکھوں جوڑے خرید سکتی ہے۔
موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا خدشہ:
ایک خدشہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم سے موروثی جائیداد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی اور بعض خاند ان سے باہر کے لوگوں کی بھی شراکت ہو جائے گی۔ اگر یہ خطرہ ہے کہ بہن اپنا حصہ لے کر چلی جائے گی تو اس کی بیوی بھی تو کسی کی بہن بیٹی ہو گی جو اپنا حصہ لے کر آئے گی، اسی طرح توازن برقرار رہے گا۔
یہ چند اسباب ہیں جنہیں اگر عذرلنگ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، جن کو بہانہ بنا کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے نافذ کردہ احکام میراث کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔SCS کی دستک کئی سارے واقعات کے پس منظر میں آپ کی دہلیز پر اس امید کے ساتھ آن پہنچی ہے کہ آپ کا اٹھایا ہوا ایک مثبت قدم معاشرے میں تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔