مسئلہ 1/10- اشارات کے ذریعے کوئی مالی معاملہ انجام دینا:
اشارے کے ذریعے ایجاب و قبول صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو بولنے سے پیدائشی طور پر معذ ور ہو، اگر کو ئی شخص بولنے پر قادر ہو تو اشارے کے ذریعے اس کا کیا ہو امعاملہ معتبر نہیں سمجھا جائے گا۔ اس طرح اگر کوئی شخص حادثاتی طور پر بولنے سے معذور ہو جائے، تو بھی (فقہائے احناف کے نزدیک) جب اس معذوری کی حالت میں اتنا عرصہ گذر جائے کہ وہ اشاروں کی زبان استعمال کرنے لگے اور اس کے اشارات کو لوگ بھی سمجھنے لگے،
تو ایسا شخص بھی اشارات کے ذریعے معاملات انجام دے سکتا ہے۔ جبکہ جمہور فقہا ئے کرام کے نزدیک معذور شخص بہر حال اشارات کے ذریعے معاملات انجام دے سکتا ہے، اگر چہ اس کی معذوری عارضی اور وقتی طورپر ہی ہو۔ (الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ:مادہ :خرس)
معذور کے علاوہ اگر تندرست شخص بولنے یا لکھنے کے بجائے اشارات کے ذریعے کوئی مالی معاملہ انجام دے، تو فقہائے کرام کی اکثریت کے نزدیک اس طرح کا معاملہ کوئی شرعی و قانونی حیثیت نہیں رکھتا، البتہ فقہائے مالکیہ کے ہا ں تندرست شخص بھی اشارے کے ذریعے معاملات انجام دے سکتا ہے، لہذا تندرست شخص کو چاہیے کہ مالی معاملات اشارات کے بجائے زبان یا تحریر کے ذریعے انجام دینے کا اہتمام کرے، تاکہ اس فقہی اختلاف سے بچا جائے اور شک و شبہ سے بالاتر (Fair) معاملہ انجام دیا جائے کیونکہ اشارات سے کسی شخص کا منشا پوری طرح واضح نہیں ہو پاتا تاہم اگر ایک مرتبہ کوئی معاملہ اس طرح اشارے کے ذریعے انجام دیا جا چکا ہو اور اسے کالعدم قرار دینے میں کوئی واضح حرج ہو تو مالکی فقہاء کی اس رائے پر عمل ہو سکتا ہے اور اس معاملے کو کافی سمجھا جا سکتا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیہ:مادہ، بیع،فقرہ:26)
مسئلہ 14- قبول میں صرف ’’ہاں‘‘ (Yes) کے لفظ کے استعمال کا حکم:
خرید و فروخت کے معاملے میں ایجاب (پیشکش) کا حکم تو پورے جملے کے ذریعے ادا کیا جائے گا، کیونکہ کسی چیز کے خریدنے یا بیچنے کی خواہش کا اظہار پورے جملے کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے، کسی مفرد لفظ کے ذریعے نہیں اور تقریباً ہر زبان میں یہی ضابطہ ہے، البتہ ایجاب کے بعد قبول کرنے میں ’’ہاں‘‘ کا مفرد لفظ استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خریدار و فروخت کنندہ سے کہے کہ ’’یہ چیز میں نے آپ سے خرید لی‘‘ اور فروخت کنندہ کہے: ’’ہاں‘‘ تو یہاں یہ ’’ہاں‘‘ کا لفظ قبول شمار ہو گا اور اس ’’ہاں‘‘ کے لفظ سے بیع وجود میں آئے گی، البتہ اگر اس کا عکس ہو، یعنی فروخت کنندہ تو پوری بات کرے، لیکن خریدار محض (ہاں)کہنے پر اکتفاء کرے تو اس سے بیع وجود میں نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی صورت میں خریدار نے ’’خریدلی‘‘ کا لفظ جو استعمال کیا ہے تو اس لفظ کا استعمال اس وقت درست ہو سکتا ہے جب اس سے پہلے بیچنے والا اس کو یہ چیز بیچ چکا ہو کیونکہ کسی کے بیچنے کے بعد ہی اس شخص کو خریدار اور اس کے عمل کو ’’خریداری‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے، لہذا جب خریدار کے اس لفظ کے جواب میں بیچنے والے نے ’’ہاں‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو اس کا بظاہر یہی مطلب ہو گا کہ میں نے یہ چیز آپ کو بیچ دی ہے، لہذا اس صورت میں خرید و فروخت کا معاملہ طے شدہ) Done (سمجھا جائے گا، اس کے برعکس اگر خریدار ’’ہاں‘‘ کہتا ہے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہو گا کہ ’’ہاں‘‘ آپ (یعنی بیچنے والے) نے مجھے یہ چیز بیچنے کی پیشکش کر دی ہے اور میں نے نہیں لی ہے اور جب اس کا یہ مطلب ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حتمی معاملہ کے الفاظ نہیں ہیں، لہذا ان سے کوئی معاملہ وجود میں نہیں آئے گا، البتہ اگر خریدار واضح طور پر کہہ دے ’’ہاں میں نے خرید لی‘‘ تو پھر چونکہ یہ حتمی معاملے کے الفاظ ہیں ۔ معاملے کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا مطلب نہیں بنتا لہذا ان الفاظ کے ذریعے مالی معاملہ انجام دیا جا سکتا ہے۔(شرح المجلہ للاتاسی:32/03، مکتبہ رشیدیہ)
وضاحت:
مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں ’’ہاں‘‘ کے لفظ کے استعمال سے متعلق جو فرق لکھا گیا ہے یہ فقہائے کرام کے زمانے میں رائج عرف کے تحت لکھا گیا ہے، لہذا آج اگر کسی علاقے یا مارکیٹ میں مذکورہ بالا فرق ملحوظ نہ ہو، بلکہ دونوں صورتوں میں اس کو فریق اول کی پیشکش کو قبول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو تو پھر ان دونوں صورتوں کا حکم بھی یکساں ہو گا ، یعنی دونوں صورتوں میں ’’ہاں‘‘ کے لفظ کا استعمال معاملے کی درستی کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔
مسئلہ15-’’یہ چیز خریدی ہوئی سمجھے‘‘ کہنے سے معاملے کا حکم:
اگر عقد کے وقت خریدار یوں کہے: (یہ چیز خریدی ہوئی سمجھے) یا فروخت کنندہ کہے (یہ چیز بیچی ہوئی سمجھیں) تو ان جیسے الفاظ سے بظاہر کوئی حتمی معاملہ وجود میں نہیں آ سکتا، لہذا ان الفاظ کے ذریعے خرید و فروخت کے معاملے کا کوئی وجود نہیں مانا جائے گا، زیادہ سے زیادہ ان الفاظ کے ذریعے خرید و فروخت کا وعدہ وجود میں آ سکتا ہے جس کا حکم مسئلہ 1 کے تحت بیان ہوا، البتہ اگر کسی خاص طبقے کے عرف و عادت میں یہ الفاظ حتمی معاملہ کے لیے ہی استعمال ہوتے ہوں تو پھر ان لوگوں کے درمیان ان الفاظ کے ذریعے کیا جانے والا معاملہ بھی طے شدہ اور معتبر سمجھا جائے گا۔