٭۔۔۔۔۔۔مارکیٹنگ کے جدید فن میں سکھا یا جاتا ہے کسٹمر کو اتنا خوش کرو کہ وہ جیب ڈھیلی کرنے پر تیار ہوجائے
'' ڈاکٹر نے پرانی دوا لکھی تھی، کئی میڈیکل سٹور چھان مارے، لیکن کسی کو اس دوا کانام بھی معلوم نہیں تھا۔ ڈاکٹر کو بتایا تو انہوں نے ایک فون نمبر دیا اور کہا: یہاں سے دوا مل جائے گی۔
فون ملانے پر ایک نسوانی آواز تمام تر نزاکتوں کے ساتھ خدمت کے لیے تیار تھی۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ دوا ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ 25 دن کا کورس ہے جس کی قیمت 1200روپے ہے۔ کچھ دوا لینے کا تقاضہ اور کچھ اس لڑکی کی انتہا درجے کی اپنائیت نے فوراً حامی بھروادی۔ دوا کورئیر کے ذریعے گھر آگئی۔ اس دوران کچھ ڈاکٹر دوستوں سے مذاکرہ ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ طاقت کی عام سی اور معمولی سے فارمولے کی دوا بازار میں 80 روپے کی دستیاب ہے۔ گویا 1120 روپے زائد وصول کیے گئے تھے۔ لیکن اب اپنی بے وقوفی پر ہنسنے یا رونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ آج دوا خریدے 25 دن ہو چکے ہیں۔ فون کی گھنٹی بجی تو وہی نمبر جگمگانے لگا۔ میں نے اوسان قابو میں کرتے ہوئے فون اٹھایا تو وہی میٹھی آواز دوبارہ سنائی دی، لیکن اس مرتبہ حقیقت معلوم ہوجانے کی وجہ سے کانوں میں رس نہ گھول سکی۔ لڑکی کہہ رہی تھی: آپ کی دوا کا پہلا کورس مکمل ہوچکا ہوگا۔ دوسرے کورس کے لیے دوا کب بھجوادی جائے؟ اس سے زیادہ سننے کی سکت نہ رہی، لہٰذا فوراً فون بند کردیا۔ مجھے خیا ل ہوا کہ انسان جتنا بھی عقلمند ہو لیکن ایک نسوانی فون کے دھوکے میں آکر کتنا بیوقوف بن جاتا ہے۔'' یہ کہانی کچھ دن پہلے ایک تاجر کی زبانی معلوم ہوئی۔
مارکیٹنگ کے جدید فن میں سکھا یا جاتا ہے کسٹمر کو اتنا خوش کرو کہ وہ جیب ڈھیلی کرنے پر تیار ہوجائے
مارکیٹنگ آج کل ایک فن بن چکا ہے۔ اس میں سکھا یا جاتا ہے کہ کسٹمر کو اتنا خوش کرو کہ وہ جیب ڈھیلی کرنے پر تیار ہوجائے۔ اب خوش کرنے کا طریقہ کیا ہو؟ اس میں مختلف آرا ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پروڈکٹ پر توجہ دی جائے تو اس سے کسٹمر بھی خوش رہے گا اور زیادہ قیمت بھی دے گا۔ گو یہ اسلامی تعلیمات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں کیونکہ اس میںاچھا پیش کرنے پر توجہ ہے لیکن اس سے اچھے کو پیش کرنے پر توجہ نہیں۔ گویا یہ بہت اچھا چند اور لوگوں کی خدمت ہے، عمومی معاشرے کی خدمت مدنظر نہیں،چنانچہ آج کل گوشت، کپڑے اور جنرل آئٹمز کے لیے بڑے بڑے آؤٹ لیٹس اور سپر سٹورز کھل رہے ہیں۔ ان میں اچھی چیز کی گارنٹی کے ساتھ غیرمعمولی قیمتیں طلب کی جاتی ہیں۔ البتہ اس لحاظ سے یہ کچھ بہتر ہے کہ اس میں چکر دینے کے بجائے مصنوعات کو اچھا بنانے پر توجہ ہے۔ جبکہ دیگر مارکیٹنگ تکنیکس میں تو دھوکا ہی دھوکا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ قیمت کم رکھیں تاکہ لوگ چیز خراب ہونے کے امکان کی صورت میں بھی پیسے لگانے پر تیار ہوں یا زیادہ قیمت رکھیں تاکہ لوگ اس چیز کو نفسیاتی طور پر اچھا سمجھیں۔ اسی طرح ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کے ذرائع (sources) کو رشوت کے طور پر بیش قیمت آفرز کی جائیں، مثلاً: دوا لکھنے والے ڈاکٹروں کو تفریحی دوروں اور بیش قیمت ہدیوں کے ذریعے اپنی دوا لکھنے پر مجبور کیا جائے۔ معاملات میں خواتین کو آگے رکھا جائے تاکہ چند مرتبہ تو ''الو بنایا'' جاسکے۔ چاہے وہ خواتین کاؤنٹرز پر بیٹھی ہوں یا فون پر دھوکے کا ذریعہ بنتی ہوں۔
آج کل اسی تکنیک سے چند کوڑیوں کے جوڑوں کے درد کا مرہم ہزاروں روپے میں دستیاب ہے۔ ہر عمر میں قد بڑھانے کی ناقابل فہم دوائیں، ہوم ڈیلیوری کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں۔ بال اگانے کی نادر ترکیبیں آپ کی حلال آمدنی پر نظر لگائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیٹ ورک مارکیٹنگ کے عنوان سے بھی اسی قسم کے ایک حربے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ مارکیٹنگ کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں جو معاشرے میں غیر ضروری اثاثوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور ہماری جیبیں خالی کررہے ہیں۔ لہٰذا مشتری ہوشیار باش!