جب دو یا زیادہ اشخاص یا ادارے کسی رشتے یا کسی معاہدے کے تحت مشترکہ امور انجام دیتے ہیں تو کام میں رکاوٹ آنا قدرتی امر ہے۔ دنیا میں ہر دو افراد کی نفسیات اور مزاج میں فرق ہے۔پھر کوئی شخص بھی کسی کے ماتحت چلنے پر خوشی سے تیار نہیں ہوتا،لہذا ایسے حالات میں مشترکہ مہم کی کامیابی کے لیے فریقین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروٹوکول یا رعایت کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے کے حقوق بڑھ چڑھ کر ادا کریں اور اپنے حقوق میں کوتاہی پر تحمل کریں تاکہ ایشوز پیدا ہی نہ ہونے پائیں۔اسی طرح خدانخواستہ کبھی لاشعوری طور پر کوئی ایشو پیدا ہو جائے تو اسے حل کرنے کے

لیے پہلے سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
آج کل MBA کی تعلیم میں اسے کہا جاتا ہے کہ Freindly environment پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہر حال! ایسے موقع پر اپنے نفس کو دباناآسان نہیں ہوتا۔قیاس یہ ہے کہ دنیا داری کا رجحان رکھنے والے افراد کے لیے اپنے پروٹوکول پر سمجھوتہ کرنا کافی مشکل ہو تا ہے۔ جبکہ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ ’’فرض عین‘‘ ادا کرنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ انہیں قرآن و حدیث، سیرت طیبہ اور صحا بہ و اولیا کے واقعات میں جا بجا تواضع اور عاجزی کے بیش بہا نمونے (Modles) دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھدار لوگ اس پر عمل ضرور کرتے ہیں۔کچھ دینی فرض سمجھ کر اور کچھ نوکری یا منافع کی خاطر۔
خیر! ان دو طرفہ تعلقات میں ایک صورت تو یہ ہے کہ دونوں فریق ہم پلہ ہوں۔جیسے دو دوست، دو شریکPartner یا دو ڈائریکٹر۔ اس صورت میں سمجھدار لوگ ایک دوسرے کی حیثیت اور عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اپنامشترکہ کام کامیابی سے انجام دے لیتے ہیں۔ لیکن اگر سمجھداری میں کمی ہو تو پھر ایک نہ ختم ہونے والی سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے جس سے مشترکہ مفادات سرد خانے کی نذر ہو جاتے ہیں۔


٭… دونوں فریق ہم پلہ ہوںتو سمجھدار لوگ ایک دوسرے کی حیثیت کا خیال کرکے مشترکہ امورکامیابی سے انجام دے لیتے ہیں ٭… کم درجہ فریق پر اطاعت کو ایسا لازم کر دیا کہ کوئی اور آپشن نہیں، ساتھ ہی بلند درجے والے کو ایسی ہدایات دیں کہ وہ ظلم نہ کر سکے

دوسری صورت یہ ہوتی ہے دونوں فریقین برابر نہ ہوں،مثلاً: باپ،بیٹا،میاںبیوی، سپروائزر اور لیبروغیرہ۔ اس صورت میںتعاون کے ساتھ ایک دوسرامعاملہ ادب یا Protocol کا بھی ہوتا ہے۔یعنی یہاں آزادانہ کام نہیں ہو سکتا،بلکہ ایک باادب ماحول میں سوچ سمجھ کر چلنا ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مستقل فن (Organizational behaviour)پڑھایا جاتا ہے۔ آئیے! ہم اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں،مثلاً: میاں بیوی کے تعلق کو لے لیجیے۔ انہوں نے پوری زندگی باہمی تعاون سے گزارنی ہوتی ہے۔ میاں کو شریعت نے بلند مرتبہ قرار دے کر عورت کو اس کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔ ایک روایت میں اس حد تک تاکید فرما دی کہ اگر میں کسی کو اللہ کے علاوہ سجدہ کا حکم دیتا تو بیوی کو کہتا کہ شوہر کو سجدہ کرے۔ اس جانب سے اطاعت کی اتنی تاکید، دوسری جانب سے شوہر کو سرتاج ہونے کے گھمنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے حکم دیا گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہیں جو (ایک نظام کے تحت) آپ کے ماتحت آگئی ہیں۔ انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاؤ۔ انہیں ویسا ہی (معیاری) جوڑا پہناؤ جیسا تم پہنو۔ گویا اصول اخذ کیا جائے تو یہ کہ کم درجے کے فریق کے لیے اطاعت کو ایسا لازم کر دیا جائے کہ کوئی اور آپشن نہ رہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ بلند درجے والے کو بھی ایسی ہدایات کا پابند کر دیا جائے کہ وہ ظلم نہ کر سکے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ انتظامی درجہ بندی کو بادشاہت سمجھ کر ظلم کر بیٹھے۔
یہی پیغام والدین اور اولاد کے متعلق بھی ملتا ہے کہ اولاد کو ان کے سامنے ’’اف‘‘ کہنے کی بھی اجازت نہیں، لیکن باپ پر لازم ہے کہ ان کے خرچے کا معتدل بندوبست کر نے کے علاوہ ان کی بہترین تربیت کا انتظام کرے۔ والدین پر لازم ہے کہ بچے کا نام اچھا رکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اسے بعد میں عار دلائی جائے۔ دیکھیے! اولاد کو فرماںبرداری کا کلی طور پر پابند کر دیا گیا ہے، لیکن والدین کو ان کے تمام تر حقوق کے باوجود اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس پر مالکانہ تصرف کرنا شروع کر دیں۔
بالکل اسی طرح اسلام نے کاروباری اشخاص اور اداروں کے لیے یہ بات طے کر دی ہے کہ اگر وہ برابر کے ہیں تو حتی الامکان ایک دوسرے کی حیثیت کی رعایت اور اپنے حقوق پر سمجھوتے کا رویہ اپنائیں۔ اگر کوئی فریق کم درجے کا ہے تو اسے انتظامی کاموں میں دوسرے کی مکمل اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ہاں! بڑے عہدے والے کو بھی ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کرنا چاہیے، تاکہ ایشوز پیدا نہ ہوں اور معاملات سلیقے سے چلتے رہیں۔