’’ہم ابتدا سے ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسٹمرز کو معیاری مرچنڈائز مناسب قیمت پر فراہم کرتے رہیں اور شاندار اور عمدہ سروس مہیا کرتے رہیں تو ہم امریکا میں ریٹیلنگ کے بزنس میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آج ہم دوسروں کے لیے مثال ہیں اور جس طرح ریٹیلنگ ہونی چاہیے ، ویسی ہی ہے۔ ‘‘
ہمارے ملازمین کسی کمپنی یا دفتر سے جُڑے تو رہتے ہیں، لیکن نوکری سے نکال دینے کا خوف بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی مالکان بھی اتنی تنخواہ دیتے ہیں کہ ملازمین انہیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں اور ملازمین بھی اتنا کام کرتے ہیں کہ کمپنی سے نکال نہ دیا جائے اور کام چلتا رہے
یہ الفاظ ہیں اس شخص کے، جس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک کمپنی ’’دی ہوم ڈپاٹ‘‘ (The Home Depot) کی 1979ء میںبنیاد رکھی۔ اس نے صرف 35سال میںکمپنی کو بلندیوں کی انتہا تک پہنچا دیا۔ اس کمپنی میں 3لاکھ 40ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ یہ آدمی خود بھی ایک ارب پتی شمار ہوتا ہے۔
اس شخص کا نام برنارڈ مارکس (Bernard Marcus)ہے۔ یہ ایک امریکی فارماسسٹ، بزنس مین اور سماجی شخصیت ہے۔ برنارڈ 1929ء میں ایک یہودی خاندان میںپیدا ہوا جو روس سے ہجرت کر کے نیویارک، نیوجرسی آیا تھا۔ یہ Tenmentگائوں میںپلا بڑھا۔ اس نے1947ء میں گریجویشن کی ڈگری سائوتھ سائیڈ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ برنارڈ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، لیکن یہ غریب ہونے کی وجہ سے ٹیوشن ادا کرنے فیس کی استطاعت نہیں تھی۔ اپنا تعلیمی خرچ پورا کرنے کے لیے اپنے والد کے ساتھ فرنیچر کا کام کرتا تھا۔ برنارڈنے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ یہ ڈاکٹر تو بن نہ سکا، لیکن Rutgess یونیورسٹی سے فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس دوران اس نے ایک میڈیسن کمپنی جوائن کر لی۔ اس کے بعد ایک ڈرگ اسٹور میں بطورفارماسسٹ ملازمت کرنے لگا۔ یہاںبرنارڈ کا اس کام میںجی نہیں لگ رہا تھا، بلکہ اس کی دلچسپی ریٹیلنگ کے بزنس میں بڑھنے لگی۔ پھر یہ ایک Cosmeticکمپنی میں نوکری کرنے لگا۔ اس کے علاوہ بھی ریٹیلنگ کے شعبے میں بہت سی نوکریاں کیں۔ برنارڈ نے اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے مسلسل سیکھنے کی کوشش جاری رکھی۔ جہاں اسے احساس ہوا کہ اس ملازمت میں سیکھنے کو کچھ نہیں ملے گا یا ترقی کے امکانات معدوم ہیں، اس کمپنی کو چھوڑ دیا۔ ہمارے ملازمین کسی کمپنی یا دفتر سے جُڑے تو رہتے ہیں، لیکن نوکری سے نکال لے جانے کا خوف بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی مالکان بھی اتنی تنخواہ دیتے ہیں کہ ملازمین انہیں چھوڑنہ جائیں اور ملازمین بھی اتنا کام کرتے ہیں کہ کمپنی سے نکال نہ دیا جائے اور کام چلتا رہے۔برنارڈ نے دورانِ ملازمت چھوٹے چھوٹے بزنس، پارٹنر شپ کی بنیاد پر کیے، لیکن وہ کچھ چل نہ سکے۔ اس کی اپنی ایک سوچ تھی جو دوسروں سے میل نہیں کھاتی تھی۔
اب اتنا کچھ سیکھ جانے کے بعد برنارڈ کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ برنارڈ محنتی ہونے کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتا تھا، جس کی وجہ سے ایک کمپنی ’’Two Guys‘‘ کا ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ بن گیا۔ پھر یہ ایک اور کمپنی Handy Dan میں بھی کام کرنے لگا، جو ہوم امپرومنٹ اسٹورز کی ایک چھوٹی سی چین تھی۔ یہ کمپنی آخری سانس لے رہی تھی۔ برنارڈ کے آنے سے اس میں زندگی لوٹ آئی۔ برنارڈ نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔ اس کے زیرِ نگرانی کمپنی کے اسٹورز کی تعداد 80 تک جا پہنچی۔ اس دوران برنارڈ نے ہوم امپرومنٹ کے کام کو اچھی طرح جان اور سیکھ لیا۔ یہ اس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں تک سے واقف ہو چکا تھا۔
برنارڈ کے لیے ایک امتحان جو بظاہر ایک کرب ناک واقعہ تھا لیکن اس نے اسے ایک کمپنی کا بانی اور ارب پتی بنا دیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے حسد کی وجہ سے اسے کمپنی سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ایک اور گمنام ملازم آرتھر بلینک (Arthur Blank) کو بھی نکال دیا۔
برنارڈ اور آرتھر دونوں کو ایک دوسرے سے پہچان تک نہ تھی، لیکن دونوں کی طبیعت ملنے کی وجہ سے دونوں نے مل کر ایک نیا کاروبار شروع کیا۔ ان کے پاس زیادہ سرمایہ نہیں تھا۔ ان دونوں نے ایک مالیاتی ادارے سے رقم لے کر کام شروع کر دیا، جو بڑھتے بڑھتے دنیا بھر میں چھا گیا۔
برنارڈ کے مطابق پہلے دن سے ہم دونوں نے تہیہ کیا ہم صرف بزنس تعمیر نہیں کریں گے، بلکہ ایک کلچر تخلیق کریں گے کہ بزنس کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہم نے اپنے ملازمین کو سخت محنت اور کسٹمرز کو خوش رکھنے کی ٹریننگ دی۔ تمام ملازمین کو ٹریننگ دی کہ وہ شائستگی اور تعاون کے ساتھ کسٹمرز سے پیش آئیں۔ اس وقت ’’ہوم امپرومنٹ‘‘ کے شعبے پر لوگ اعتماد نہیں کرتے تھے۔ ہم نے ایک ایسا کلچر اور ماحول پیدا کردیا کہ کسٹمرز اس شعبے کے ملازمین سے محبت کرنے لگے۔ جب وہ ایک بار ہماری سروس کا مزہ چکھ لیتے، وہ بار بار آتے اور ہماری کمپنی The Home Depot کی ترقی میں حصہ ڈالتے رہتے اور آج بھی یہ سفر جاری ہے۔
اگر آج ہم یہ عہد کریں کہ بزنس کرتے ہوئے معیاری پروڈکٹ اور سروس مناسب قیمت پر فراہم کریں گے۔ کسٹمر سروس کو بہتری کی طرف لائیں گے۔ اپنے ملازمین کو گاہک سے پیش آنے کی ٹریننگ وغیرہ دیں تو ہمارا بزنس تعمیر نہیں ہوگا بلکہ ایک کلچر تخلیق ہوگا کہ مسلمان کیسے عمدہ اور مثالی کاروبار کرتے ہیں۔