یہ انسان کے ساتھ اکثر ہوتا ہے کہ بچپن میں پڑھی ہوئی تحریر یا بڑوں سے سنی ہوئی بات، ہمت ہارے انسان کو سہارا دے کر دوبارہ قدموں پر کھڑا کر دیتی ہے۔ انسان اس کی بدولت آگے چلنے اور بڑھنے لگتا ہے۔ پڑھی ہوئی عبارت اور سنی ہوئی بات کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لمحہ آن پہنچے، جب اس کی ضرورت ہو۔ تب یہ خود بخود اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔


’’دریا سامنے پہاڑ دیکھ کر اپنا راستہ بدل کے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔‘‘ یہ ایک جملہ بچپن میں ایک کتاب میں پڑھا تھا اور یہ ایک ایسے موقع پر اپنا کام دِکھا گیا، جہاں میں بالکل ہمت ہار گیا تھا۔‘‘تھامس رائے اپنی جفاکشی کی روداد خود بیان کرتا ہے۔وہ کہتا ہے


میں نے ایک حجام کے گھر 5 جون 1894ء کو ٹورنٹو، انٹاریو میں آنکھ کھولی۔ ہمارا خاندان اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کر کے کینیڈا آیا اور یہاں آ کر آباد ہو گیا۔ ہم دس بہن بھائی تھے۔ ہمارے والد اتنا کما لاتے تھے کہ گھر کا اچھا گزر بسر ہو جاتا تھا۔ میرے والد یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے بھی اس کا پیشہ اختیار کریں۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر خوش حال زندگی گزار سکیں۔ اپنے والد کی خواہش کے احترام میں، میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی، یہاں تک کہ ایک بزنس کالج سے تعلیم مکمل کر لی۔

میری دیرینہ تمنا تھی کہ فوج میں ملازمت کروں گا، لیکن یہ آرزو اس وقت کرچی کرچی ہو گئی جب مجھے جنگ عظیم کے دوران فوج کی جاب سے رد کر دیا گیا۔ میری بینائی کمزور تھی، جس کی وجہ سے فوج میں نوکری مل نہ پائی۔ یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اب میری آرزو پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ میں ہمت ہار کے بیٹھ گیا۔ کچھ کرنے کا جذبہ ماند پڑ گیا اور میں بھی شکستہ دل ہوگیا۔ کافی عرصہ پریشان رہا اور سوچتا بھی رہا۔ سوچ سوچ کے ہلکان ہو گیا۔ صحت گرنے لگی۔ میری وجہ سے والدین بھی پریشان رہنے لگے۔

ایک دن کمرہ بند کر کے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک پرانا پڑھا ہوا جملہ میرے ذہن میں بجلی بن کر کوندا۔ میں نے اپنے اندر ایک قوت محسوس کی جو مجھے آگے بڑھنے پر مجبور کرنے لگی۔ میں نے فوجی بننے کا خیال دل سے نکال کر ایک کسان بننے کی ٹھان لی۔ کچھ عرصہ Manitoba میں کھیتی باڑی کرتا رہا، لیکن اس میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پھر ٹورنٹو شہر واپس چلا آیا۔ یہاں مختلف کام کیے۔ آخر سیلزمین کا کام راس آگیا۔ پھر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ڈسٹری بیوشن کا کام کرنے لگا اور پھر شمالی انٹاریو میں ایک کمپنی کا ایجنٹ بن گیا جو ریڈیو بناتی تھی۔

شمالی انٹاریو میں ریڈیو بیچنا بہت مشکل کام تھا، کیونکہ یہاں کوئی ریڈیو اسٹیشن نہیں تھا۔ رات کو یا کبھی کبھار یہاں سگنل پہنچ پاتے، جن سے ریڈیو چلتا۔ اس وجہ سے یہاں اس کی مانگ بالکل نہ تھی۔ اس کا حل یہ سوچا کہ میں خود ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کرتا ہوں، تاکہ یہاں کے لوگ ریڈیو سے محظوظ ہو سکیں اور میرا بزنس بھی چلے، لیکن ایک نئی مشکل آن کھڑی ہوئی کہ ریڈیو اسٹیشن کے لیے لائسنس لینا پڑے گا اور میرے پاس اتنی رقم نہ تھی۔

قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ قریب ہی واقع ایک کمپنی Abitibi Paper کے پاس اس کا لائسنس تھا، لیکن وہ استعمال نہیں کر رہی تھی۔ اس کمپنی کی انتظامیہ سے بات ہوئی اور یہ طے پایا کہ کرایے پر لے جائیں، جب وہ چاہیں واپس لے سکتے ہیں۔ میں نے اسے غنیمت سمجھا۔ پھر میں ایک کمپنی نیشنل کا کارکن بن گیا، وہاں سے ایک مستعمل ٹرانسمیٹر خریدا اور اس کے ساتھ ایک کاریگر بھی لے آیا تاکہ وہ اسے چالو رکھے۔

میری دن رات کی تگ و دو سے آخر کار مارچ 1931ء میں CFCH ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا۔ اب میرا کاروبار بڑھنے لگا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی، وہ ریڈیو اسٹیشن پر لگانے لگا۔ ادھر ایک نئے مسئلے نے جنم لیا۔ اس علاقے North Bay سے ریل کی پٹڑی گزرتی تھی جو ریڈیو اسٹیشن کے لیے کسی طرح مفید نہیں تھی۔ وہاں سے سونے کے ذخائر دریافت ہونے کی وجہ سے حکومتی دباؤ بھی بڑھ گیا کہ اپنی جگہ تبدیل کریں۔ پھر اسے ایک دوسری جگہ منتقل کیا۔ ریڈیو اسٹیشن قائم تو کر لیا تھا لیکن اس کی مشکلات کا اندازہ پہلے نہ تھا، اب وقت کے ساتھ ان کا احساس ہونے لگا۔ اس سے نمٹنے کے لیے ایسے لوگ ملازم رکھے جو اس شعبے میں بڑے نام کے مالک تھے۔ ان پروفیشنل ملازمین نے ریڈیو اسٹیشن کو ایک اچھا بزنس بنا دیا۔ اس لیے اگر آپ کو کسی کام کا تجربہ نہ ہو تو اس کے لیے پروفیشنل لوگ رکھ لیے جائیں، اس سے نہ صرف آپ خسارے سے بچیں گے بلکہ آپ کا بزنس اور کام ترقی بھی کرے گا۔

ریڈیو اسٹیشن کی عمارت کے ایک حصے میں پرنٹنگ پریس تھا، میں نے تھوڑی سی دوڑ بھاگ کر کے اسے بھی خرید لیا۔ یہاں سے ایک اخبار نکالنے لگا۔ یہ بزنس سازگار ثابت ہوا۔ میرا ایک اپنا اخبار ’’پریس رائے‘‘ پہلے ہفت روزہ تھا، پھر یہ 1935 ء میں روزانہ کی بنیاد پر نکلنے لگا۔

اخبار کے بزنس سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا شعبہ خالی پڑا ہوا ہے۔ پھر میں اس شعبے میں کُود گیا۔ مجھے کسی اخبار کے بارے میں پتا چلتا کہ وہ بند ہونے والا ہے یا بند پڑا ہے، میں جا کر اس کا لائسنس خرید لیتا۔ اس طرح درجن بھر ممالک کے اخبار میری ملکیت میں آ گئے۔ اس کے ساتھ بہت سارے میگزین اور پرنٹنگ کمپنیاں بھی میری ہوگئیں اور کتنے ہی ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن میرے ہو چکے تھے۔

یہ تھی رائے تھامسن کی کہانی، ان کی زبانی۔
رائے تھامسن لندن میں 1976ء کو فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نے اپنے باپ کے بزنس کو Thomson Corporation کی شکل دے دی جو آج کل ایک بہت بڑی کمپنی ہے۔