(EDS)کمپنی راس پیرٹ جو کاروبار کی تمام تر کامیابی کو والدین کی حوصلہ افزائی اور قدرشناسی کا رہین منت سمجھتا ہے ٭…پیرٹ نے 1962ء میں الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم (EDS)کمپنی کی بنیاد رکھی۔ 2012ء فوربس میگزین کے مطابق: یہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے مالک ہیں اور امریکا کے 134 ویں امیر ترین شخص ہیں

 


٭…پیرٹ نے 1962ء میں الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم (EDS)کمپنی کی بنیاد رکھی۔ 2012ء فوربس میگزین کے مطابق: یہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے مالک ہیں اور امریکا کے 134 ویں امیر ترین شخص ہیں

پیرٹ کا کہنا ہے:’’اُس کی پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو مالی اعتبار سے مختلف مسائل کا شکار تھا، جہاں غربت نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا، لیکن میرے مطابق میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا، کیونکہ مجھے والدین کی طرف سے محبت اور حوصلہ افزائی کی بیش بہا دولت ملی۔ اسی دولت نے مجھے ارب پتی اور ایک کمپنی کا بانی اور مالک بنا دیا۔‘‘ راس پیرٹ (Ross Perot) ایک امریکی بزنس مین اور سیاست دان ہے جس نے 1992ء اور 96ء میں آزاد صدارتی امیدوار کے طور پر الیکشن بھی لڑا۔ پیرٹ نے 1962ء میں الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم (EDS)کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح 1998ء میں ایک اور کمپنی پیرٹ سسٹم کی بنیاد رکھی۔ 2012ء فوربس میگزین کے مطابق: یہ ساڑھے تین ارب ڈالر کے مالک ہیں اور امریکا کے 134 ویں امیر ترین شخص ہیں۔

راس پیرٹ 27 جون 1930ء کو ٹیکساس میں پیدا ہوا۔ سات سال کی عمر میں کرسمس کارڈ بیچنے لگا۔ اس کے علاوہ میگزین بھی فروخت کرتا، اس سے نہ صرف جیب خرچ نکل آتا بلکہ اپنی پڑھائی کا خرچ بھی برداشت کرتا۔ پیرٹ نے صرف کرسمس کارڈ اور میگزین بیچنے پر بس نہیں کی۔ اس کے علاوہ پودوں کے بیج بھی بیچتا۔ بچوں کے کھلونے وغیرہ بھی فروخت کرتا۔ جب کچھ بڑا ہوا تو اخبار گھر گھر پہنچانے لگا۔ اس سے ہونے والی آمدنی گھر والوں کو بھی دینے لگا۔ والدین بھی بہت خوش ہوتے کہ ان کا بیٹا پڑھائی کے ساتھ کاروبار بھی کرنے لگا ہے۔ پیرٹ کے والدین ہمیشہ اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے۔ پیرٹ بھی ان کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے سخت جدوجہد کرتا۔
پیرٹ نے اخبار بیچنے کا کام کافی عرصے تک جاری رکھا۔ اس دوران اسے کلاسیفائیڈ اشتہار کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں، پھر اس کا بھی کام کرنے لگا۔ یہ بھی ایک چھوٹا سا لیکن ایک کامیاب بزنس ثابت ہوا۔


پیرٹ ایک تخلیقی ذہن کا مالک تھا۔ ہر وقت وہ کچھ نیا کرنے کا سوچتا تھا۔ اسکول اس نے بوائے اسکاؤٹ آف امریکا جوائن کر لیا اور یہاں صرف 13 ماہ میں ایگل اسکاؤٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اس کے بعد 19 سال کی عمر میں پیرٹ یو ایس نیول اکیڈمی میں چلا گیا اور وہاں بطورِ کلاس پریذیڈنٹ، چیئرمین آف آنر کمیٹی اور بٹالین کمانڈر کی خدمات سر انجام دیتا رہا۔ یہ صرف ذہین نہیں تھا بلکہ محنتی اور دلجمعی سے کام کرنے والا تھا۔ جب آپ محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں قدرت آپ کے لیے کامیابی اور ترقی کے راستے کھولتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی محنتی شخص کو ذہانت ودیعت کر دی گئی ہو تو یہ اس کے لیے سونے پر سہاگہ ہے۔ نیول آکیڈمی میں شاندار کارکردگی پر اسے بہترین لیڈر کے طور پر چُنا گیا۔ اس نے یہاں سے نیشنل کالج ایوارڈ فار لیڈرشپ حاصل کیا۔

نیوی کی ملازمت چھوڑنے کے بعد 1957ء میں پیرٹ نے انٹرنیشل بزنس مشینز (IBM) میں ایک سیلزمین کے طور پر نوکری شروع کر دی۔ ایک سال کی مدت میں پیرٹ نے محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اس نے صرف دو ہفتوں میں اپنے حصے کی سالانہ سیل پایہ تکمیل تک پہنچا دی۔ یہاں کے سارے سیلزمین اس پر رشک کرتے۔ پیرٹ کے مطابق اپنے حصہ کا سیل کوٹا پورا کرنا اس لیے آسان ہو گیا تھا کہ اس نے بچپن سے چھوٹے چھوٹے اور معمولی بزنس کر کے کسٹمرز کی نفسیات پہچان لی تھیں اور ان کے ساتھ ڈیل کرنا آگیا تھا۔

پیرٹ نے یہاں کام کرتے ہوئے اپنے تجربات اور قیمتی آئیڈیاز آئی بی ایم کے سپرایڈوائزرز کے سامنے پیش کرنے کی بارہا کوشش کی، لیکن وہ ایک نئے آنے والے سیلزمین کو اتنی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے، یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ وہ ایسے ملازم سے محروم ہونے جا رہے تھے جو یہاں سے جاب چھوڑ کر ایک نئی کمپنی کے بنیاد رکھنے والا تھا۔ آخر کار پیرٹ دلبرداشتہ ہو کر آئی بی ایم کو چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ 1962ء میں اپنی اہلیہ سے ایک ہزار ڈالر ادھار لے کر اپنی کمپنی الیکٹرانک ڈیٹا سسٹم (EDS) کی بنیاد رکھ دی۔ یہ کمپنی اگلے 22 سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی سروسز فرم بن گئی۔

پیرٹ اپنی کاروباری مصروفیات کے ساتھ رفاہی کاموں میں بھی مگن رہا۔ لوگوں کی خدمت کرنا بھی اس کے لیے ایک بزنس تھا، جیسے کاروباری حضرات بزنس سے نفع وغیرہ حاصل کر کے اپنے جسمانی آرام و سکون کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی خدمت سے آپ کو روحانی اور باطنی سکون میسر آتا ہے۔

پیرٹ کے پانچ بچے اور 15 پوتے پوتیاں ہیں۔ پیرٹ کا کہنا ہے کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ اپنی اولاد کو بزنس سے زیادہ وقت دیتا ہوں۔ یہی میری کامیابی ہے۔ میرے والدین نے مجھے محبت اور پیار دیا، جس کی وجہ سے میں نے وہ کر دِکھایا جس کی وہ مجھ سے توقع رکھتے تھے۔ اولاد کو والدین سے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مادی اشیا اور دوسری چیز محبت اور پیار ہے۔ اگر آپ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں محبت اور پیار دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پھر ایک بار میں کہتا ہوں کہ میری کامیابی کا سہرا میرے والدین کے سر پر سجتا ہے۔ ٭٭٭