’’کاش! آج میرا باپ زندہ ہوتا اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا کہ میرا بیٹا کہاں کھڑا ہے اور فخر سے سر اٹھا کر کہتا: میرے بیٹے نے میرا خواب شرمندۂ تعبیر کر دیا ہے۔‘‘ رپورٹر نے فِل سے اس کے کسی ارمان کی بابت پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔ فِل نائٹ ’’Phil Knight‘‘ ایک امریکی بزنس مین اور سماجی شخصیت ہے۔ یہ ’’NIKE‘‘ کمپنی کا چیئرمین اور بانی ہے۔ NIKE کا تلفظ ’’نائیکی اور ’’نائیک‘‘ دونوں طرح سے کیا گیا ہے۔ ہمارے دیار میں دورسرا زیادہ مشہور ہے۔
٭…فِل کا کہنا ہے:’’اگر آپ دولت مند شخص بننا چاہتے ہیں تو اپنا بزنس شروع کریں اور اگر ایسا نہیں تو پھر بھی جاب کے بعد فارغ وقت میں چھوٹا موٹا بزنس کریں‘‘
فوربس میگزین 2014ء کے مطابق اس کمپنی کا بانی ’’فل‘‘ دنیا کا 43 واں امیر ترین آدمی ہے۔ اس کے اثاثوں کی مالیت 18.7 ارب ڈالر ہے۔ ارب پتی ہونے کے ساتھ سماجی شخص بھی ہے۔ اس نے تعلیم کے لیے Stanford GBSکو 2006 ء میں 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر چندہ دیا، جو امریکن بزنس اسکول کے لیے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ فِل تاجر ہونے کے ساتھ ایک بڑی سماجی شخصیت بھی ہے۔ اس نے اپنے ملک اور قوم کے لیے بہت کام کیا۔ فِل کو جس یونیورسٹی نے اس مقام تک پہنچایا، وہ اسے نہ بھولا۔ تعلیم کے ساتھ صحت کے لیے بھی 2008 ء میں ایک کینسر انسٹی ٹیوٹ ’’OHSU‘‘ کو عطیے کے طور ایک کروڑ ڈالر دیے۔
فِل 24 فروری 1938ء کو پیدا ہوا۔ پورٹ لینڈ میں اس کا باپ ولیم ڈبلیو نائٹ ایک وکیل تھا، لیکن ایک اخبار پبلشر میں کام کرتا تھا۔ فِل نے اپنا بچپن پورٹ لینڈ میں ہی گزارا اور وہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورنیورسٹی آف اوریگن میں داخلہ لیا۔ اپنی تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس طرح وہ ’’UO‘‘ یونیورسٹی میں ریس کے مقابلے میں تین سال یکے بعد دیگرے مسلسل اچھی کارکردگی پر انعام وصولتا رہا۔
یقینا یہ ’’فل‘‘ کی ترقی کا بام عروج ہے جو آپ نے ملاحظہ کیا۔ آئیے! اب اس کی کامیابیوں کا قدم بہ قدم سفر ایک نظر دیکھتے ہیں۔ ہوا یوں کہ یہ ہائر ایجوکیشن حاصل کر رہا تھا اور موسم گرما کی چھٹیوں میں اس نے چاہا کہ فارغ رہنے اور ادھر اُدھر فضول چھٹیاں گزارنے کے بجائے کوئی کام سیکھ لے۔ اس کے لیے وہ اپنے والد کے دفتر گیا اور جی میں بہت خوش تھا کہ اس کا ارادہ سن کر باپ خوش ہوگا اور اس کی حوصلہ افزائی کرے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے والد نے اپنے ساتھ کام پر رکھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ خود اپنا کام ڈھونڈے۔اس کی امیدوں پر اوس پڑگئی۔ فِل اپنے باپ کے دفتر سے رنجیدہ دل، مگر ایک عزم کے ساتھ نکلا کہ وہ ’’کچھ نیا‘‘ کر کے دکھائے گا۔ فِل اپنی چھٹیاں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ کام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ آخر ایک کمپنی میں رات کی شفٹ میں جاب مل گئی۔ یہ کمپنی اس کے گھر سے سات میل دور تھی۔ یہ روزانہ وہاں سے کچھ فاصلہ پیدل چلتے اور کچھ دوڑ کر طے کرتا۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ اس طرح یہ ایک اچھا ’’رَنر‘‘ بن گیا۔
فِل نے گریجویشن کے بعد دنیا بھر کی سیاحت کرنے کا پروگرام بنایا۔یہ نومبر 1962ء میں جاپان گیا۔ وہاں اس نے ٹائیگر برانڈ کے مخصوص ’’رَنر شوز‘‘ دیکھے۔ جاپان کے شہر Kobe میں ’’Onitsuka Co‘‘ نامی ایک کمپنی کا جوتا اس کی نظر سے گزرا۔ فِل اس جوتے سے بہت متاثر ہوا کیونکہ اس کی کوالٹی بہت عمدہ اور قیمت بہت کم تھی۔ فِل نے اس کمپنی کے مالک سے ملاقات کی ٹھانی، اسے فون کیا اور وہ تھوڑے سے اصرار کے بعد ملاقات کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے اور بزنس کے حوالے سے دونوں میں بات چیت ہوتی رہی۔ فِل نے آخر پر اس سے ’’ٹائیگر‘‘ کے ڈسٹری بیوشن کے حقوق ویسٹرن یونائیٹڈ اسٹیٹس کے لیے حاصل کر لیے۔ ’’ٹائیگر‘‘ کا پہلا sample ملنے میں ایک سال لگ گیا۔ اس دوران فِل پورٹ لینڈ میں بطور اکاؤنٹنٹ جاب کرنے لگا۔
جب اس نے سیمپل حاصل کر لیا تو اس نے اس کا ایک جوڑا اپنے استاد ’’Bowerman‘‘ کو بھیج دیا۔ باورمین UO یونیورسٹی میں اسپورٹس کے لیے کوچ کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ان دونوں میں دوستانہ تعلق تھا۔ اس نے ٹائیگر کے جوتے دیکھے تو بہت متاثر ہوا۔ اس نے نہ صرف فِل کو ان جوتوں کا آرڈر دیا بلکہ یہ بھی پیش کش کی کہ وہ اس کا بزنس پارٹنر بنے اور وہ اسے بہترین پروڈکٹ ڈیزائن آئیڈیاز بھی فراہم کرے گا۔ اس طرح فِل کی لاٹری نکل آئی۔
ان دونوں نے مل کر 25 نومبر 1964ء کو بلیورِبن اسپورٹس بزنس کی بنیاد رکھی۔ فِل اپنی جاب کے ساتھ اس کمپنی میں بھی کام کرتا۔ اپنی پروڈکٹ جو تے اپنی کار میں لے کر بیچا کرتا۔ یہ بزنس پانچ سالوں میں اتنا بڑھ گیا کہ آخر فِل کو اکاؤنٹنٹ کی ملازمت چھوڑنا پڑی اور پھر اپنا سارا وقت اپنے بزنس کو دینے لگا۔
فِل کا کہنا ہے: ’’اگر آپ دولت مند شخص بننا چاہتے ہیں تو اپنا بزنس شروع کریں اور اگر ایسا نہیں تو پھر بھی جاب کے بعد فارغ وقت میں چھوٹا موٹا بزنس کریں۔‘‘
فِل نے اپنی کمپنی ’’Blue Ribbon Sports‘‘ کا نام اپنے دوست ’’Jeff Johnson‘‘ کے کہنے پر ’’Nike‘‘ رکھ لیا۔ اس کا ’’Logo‘‘ دنیا کا بہترین ٹریڈ مارک شمار ہوتا ہے۔Nike کمپنی روز بروز مقبول ہوتی گئی۔ اس کی پروڈکٹ امریکا سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ایشیائی ممالک میں اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ آپ اپنے پاک وطن پاکستان میں بھی اس کی پروڈکٹ دیکھ سکتے ہیں۔