’’انسان اپنے بچپن میں کسی ایسی چیز کی تمنا کر بیٹھتا ہے ، جس کے مطلب اور مفہوم سے بالکل ناواقف ہوتا ہے، لیکن یہی آرزو پوری ہوجاتی ہے جب انسان بڑا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔‘‘ الیکسی موردیشو اپنی کامیابیوں کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے: ’’ایک دن کلاس میں میرے استاذ نے پوچھا: الیکسی! بڑے ہوکر کیا بنو گے؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’اکانومسٹ۔‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں ان کا چہرہ تکنے لگا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا۔


٭…کاروباری حضرات مطالعہ نہیں کرتے اور اگر ان سے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ وقت نہیں ملتا، حالانکہ یہ لوگ مختلف ٹریننگ لے رہے ہوتے ہیں اور بزنس بڑھانے کے لیے مختلف پروگرام میں جاتے ہیں۔ اس کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ مطالعہ کرتے تو بزنس کی نئی نئی گرہیں کھلتیں

میرے استاذ نے بتایا کہ اکانومسٹ وہ شخص ہوتا ہے جو ملک کے معاشی مسائل کا حل بتاتا ہے۔ جس سے ملک اور قوم ترقی کرتی ہے۔ میں نے اسی وقت سے ٹھان لی کہ ضرور اکانومسٹ بنوں گا۔ پھر یہ میرا ایک خواب بن گیا جسے میں حقیقت کا پیراہن پہنانا چاہتا تھا۔

میرا تعلیمی سلسلہ رواں دواں تھا۔ میں کالج تک پہنچ گیا۔ جب یہاں سے تعلیم مکمل کرچکا تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے میر ے پاس ماسکو اور لینن گراڈ دو آپشن تھے کہ ان میں موجود کس یونیورسٹی میں داخلہ لوں۔ ماسکو پڑھنے میں میرے لیے آسانیاں تھیں، لیکن یہاں کی تعلیم معیاری نہ تھی۔ آخرکار میں نے لینن گراڈ کا انتخاب کیا۔ یہ اگرچہ میرے لیے مشکل کا باعث تھا لیکن یہاں کی تعلیم اعلیٰ معیار کی تھی اور اس کا شہرہ بھی تھا۔ پہلے میں ماسکو میں ایک یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا۔ وہاں کے ڈین نے میرا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے آخر میں، میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ تعلیمی اوقات کے بعد کہاں کام کرتے ہیں؟ انہوں نے میرے سوال کو سراہا، لیکن اس کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ میرے خیال کے مطابق تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مشق ضرور ہونی چاہیے۔ آپ کو کالج کی تعلیم سے پہلے اچھے بُرے کے بارے بتلا دیا جاتا ہے اور آپ بھی اچھی طرح جان چکے ہوتے ہیں۔ اب کالج اور یونیورسٹی میں اچھے یا بُرے کی تعلیم کے بجائے یہ سکھایا جائے کہ عملی زندگی میں آپ نے کیا کام کرنا ہے؟ کس طرح ملک کی خدمت کرنی ہے؟ قوم کے لیے کام کیسے کرنا ہے؟ اور ایسی چیزوں کی تعلیم دی جائے جو آپ کے لیے بھی مفید ہو۔ یہ کیسا عجیب لگتا ہے کہ ایک طالب علم نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہوتا ہے، اس کے پاس گولڈ میڈل موجود ہوتا ہے، ڈگری ہاتھ میں تھامی ہوئی ہوتی ہے، لیکن عملی زندگی میں قدم رکھنے سے گھبراتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی عملی مشق نہیں کی ہوتی۔ ڈگری پر فخر اور گھمنڈ ہے۔ اس کے سبب معمولی کام کو ہاتھ لگانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ فاقے سے مرجائے گا، لیکن ٹھیہ لگانے میں اپنی ذلت سمجھے گا۔

لینن گراڈ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اکنامکس میں جاکر میں نے بہت خوشی محسوس کی۔ وہاں کی سلیکشن کمیٹی نے ایسے اسٹوڈنٹس کو منتخب کیا، جو تعلیم کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتے تھے۔ پھر انہوں نے طلبہ کی دلچسپی کے مطابق مختلف فروٹ اور ویجی ٹیبلز (سبزیاں) ڈپو اور کارخانوں میں انہیں کام پر لگا دیا۔ اس یونیورسٹی میں تعلیم کے ساتھ جو عملی زندگی سے متعلق تجربہ حاصل ہوا، اسے میں اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں۔

لینن گراڈسے اکانومسٹ کی تعلیم مکمل کرنے بعد سوچا کہ ایسے شعبے میں جانا چاہیے جہاں پروڈکشن ہو اور اپنی جنم بھومی Cherepovets کو بھی کچھ لوٹاؤں، کیونکہ آپ کے آبائی وطن کا آپ پر حق ہوتا ہے کہ اس کے لیے کام کیا جائے۔ اس کے لیے میں نے 1988ء میں ایک کمپنی Cherepovetsiky کو بطور اکانومسٹ جوائن کر لیا۔ 1992ء میں فنانس ڈائریکٹر بن گیا۔ اس کمپنی میں مجھے سرمایہ کاری کا موقع ملا،اسے غنیمت جانا۔ اس کمپنی کے حصص میری ملکیت میں آنے لگے، اس طرح میں اس فیکٹری میں اچھا بھلا حصے دار بن گیا۔ 1996ء میں اس کمپنی کا جنرل ڈائریکٹر بن گیا۔ میری کامیابی کا سفر جاری رہا۔ اس کے بعد میں جو ایک مِل ورکر کا بیٹا تھا، ایک کمپنی ’’severtal‘‘ کا چیئرمین بن گیا۔ اب اس کے ساتھ میں اس کمپنی کا مرکزی شیئر ہولڈر بھی ہوں۔ یہ کمپنی ایک دی میٹل بولیٹن ریسرچ کے مطابق روس کی سب سے بڑی اسٹیل کمپنی ہے۔ جولائی 2013 میں میرے اثاثے 18.5 ارب ڈالر تھے۔ اس طرح میں روس کا 9واں امیر ترین شخص بن گیا۔ لوگ میری اس کامیابی کورشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ میں انہیں کہتا ہوں: ’’صرف کام۔‘‘ محنت کریں، اپنی خدداد صلاحیتوں کو پہچانیں، خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے کے بجائے حقائق اور زمینی دنیا میں زندگی گزاریں۔ زمین پر رہنا ہے تو یہاں کام کرنا پڑے گا، چاہے وہ آپ کو پسند نہ ہو۔

ایک اور بات جو مجھے عجیب لگتی ہے کہ کاروباری حضرات مطالعہ نہیں کرتے اور اگر ان سے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ وقت نہیں ملتا، حالانکہ یہ لوگ مختلف ٹریننگ لے رہے ہوتے ہیں اور بزنس بڑھانے کے لیے مختلف پروگرام میں جاتے ہیں۔ اس کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ مطالعہ کرتے تو بزنس کی نئی نئی گرہیں کھلتیں۔ کئی پیچیدہ مسائل کا حل علم میں آتا۔ اس سے نہ صرف ان کی شخصیت نکھرتی ہے بلکہ یہ بزنس کی کامیابی میں اہم رول بھی ادا کرتا ہے۔