روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت100 روپے تک جاپہنچی۔ روپیہ کبھی اتنا بے قیمت نہ تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونا، سرمائے کا تیزی سے ملک سے باہر منتقل ہونا، صنعتی سرگرمیوں کا رک جانا۔ روپے کی اس گرتی ہوئی قیمت پر سب سے زیادہ اثر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ زرمبادلہ
کے ذخائر 8 فروری کو 15کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی کے ساتھ 13ارب 39کروڑ ڈالر کی حد تک پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت آمدن کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس وقت حکومت اپنی مقررہ حد سے کہیں زیادہ قرض لے چکی ہے۔ روپے کی اس بڑھتی ہوئی ناقدری کو دیکھ کر اسٹیٹ بینک نے فوری طور پر دو حکم جاری کیے: پہلا حکم اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خرید و فروخت سے متعلق تھا۔ اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کا کاروبار کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ کسی بھی صورت میں ڈالر کی قیمت خرید و فروخت کے درمیان 25 پیسے سے زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ تمام غیر ملکی کرنسیوں کی خرید و فروخت کے نرخ نمایاں طور پر آویزاں کیے جائیں۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر کوئی کمپنی ان احکامات پر عمل نہ کرے تو اس کی شکایت اسٹیٹ بینک کو کی جائے۔
5 نومبر1985
2جنوری 2002
3جنوری 2008
3جنوری 2011
3جنوری 2012
یکم فروری 2013
8فروری 2013
15.4
60.0
61.7
85.6
89.8
97.4
097.6
زرمبادلہ کے ذخائر
(Foreign-exchange reserves)
زرمبادلہ کے ذخائر کو عربی میں احتیاطی النقد الاجنبی کہا جاتا ہے۔ مرکزی بینک یہ ذخائر غیر ملکی کرنسی یا بانڈز کی شکل میں محفوظ رکھتا ہے۔ ان ذخائر کی مدد سے مرکزی بینک اپنے ملک کی کرنسی کو خریدتا ہیِ، تاکہ ملکی کرنسی مستحکم رہے۔ ابتدا میں یہ ذخائر صرف اور صرف سونے یا چاندی کی شکل میں محفوظ رکھے جاتے تھے۔ بریٹن ووڈ کانفرنس کے بعد دنیا بھر کی کرنسی کو ڈالر سے منسلک کردیا گیا۔ 1973ء کے بعد کسی بھی کرنسی کو سونے سے بدلنا ممکن نہیں رہا۔ اس طرح دنیا بھر کی کرنسی ڈالر سے منسلک ہوگئی۔
پاکستان میں بھی زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر کی شکل میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شما رکے مطابق ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر 8 فروری کو 15 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی کے ساتھ 13 ارب 39 کروڑ ڈالر ہو گئے ہیں۔ اسی لیے فروری میں اچانک کم ہوتی روپے کی قیمت کو سنبھالنا اسٹیٹ بینک کے اختیار میں نہیں رہا۔ اس میں 11 فروری کو آئی ایم ایف کو ادا کیے گئے 14 کروڑ 60 لاکھ ڈالر شامل نہیں ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ زرِمبادلہ کے ذخائر میں حکومت کا حصہ کم اور بینکس میں نجی کھاتوں میں ڈالرز میں اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس 8 ارب 45 کروڑ ڈالر ہیں۔ جبکہ نجی کھاتوں میں ڈالرز 4 ارب 88 کروڑ سے بڑھ کر 4 ارب 93 کروڑ ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ روپے کی قدر میں مزید کمی کی توقع کر رہے ہیں اور ڈالر کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
ملک کے زرِمبادلہ کے حصول کے روایتی ذرائع ترسیلات اور برآمدات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں یا پھر امریکا سے ملنے والی وہ رقم جو اسے دہشت گردی کی جنگ میں حلیف ہونے کی وجہ سے ملتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کو نہ تو عالمی اداروں سے قرضے ملے ہیں اور نہ ہی مطلوبہ بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس مشکل صورت حال میں پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کو قرض کی واپسی اب تک باقاعدگی سے کر رہا ہے۔ ممتاز معیشت دان ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان زیادہ عرصہ تک معاشی دباؤ کو نہیں برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے پاکستان کو جون میں نئے قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔
زر مبادلہ کے ذخائر
عہد بہ عہد
18ارب ڈالر
جولائی 2011
17ارب ڈالر
دسمبر 2011
16ارب ڈالر
جنوری 2012
15ارب ڈالر
مئی 2012
14ارب ڈالر
اکتوبر 2012
13ارب ڈالر
فروری 2013