اپنوں کی خود فراموشی
بہت بروقت، برمحل اور موزوں ہوتا اگر حلال فوڈ کی تیزی سے ترقی کرتی مارکیٹ میں پاکستان کو صرف نمایاں ہی نہیں، بلکہ قائدانہ کردار حاصل ہوتا۔ مگر بیوروکریسی نے ہمیشہ اور ہر مسئلے کی طرح اسے بھی سرد خانے کی نذر کر رکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے علمائے کرام اور سرکاری افسران پر مشتمل Pakistan National Accredition Councilکے ایک پینل نے
20دسمبر 2011ء کو پاکستان حلال پروڈکٹ ڈیولپمنٹ بورڈ کے قیام کی منظوری بھی دی، لیکن تاحال امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ''حلال ایکسپورٹ'' کے فروغ کے لیے متعدد سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں، جن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں غیر حلال کا گوشت کیا تصور !کہ یہاں جانور ذبح کرنے کا عمل 100فیصد اسلامی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے، لیکن تجارت میں مفروضے نہیں چلتے۔ یہاں خریدو فروخت کرنے والے حلال سرٹیفیکیٹ طلب کرتے ہیں۔ اگر حکومت حلال سرٹیفکیٹ سے متعلق صارفین کے تقاضے پورے کر سکے تو پاکستان کو جنوبی ایشیا کی طرف سے حلال برآمدات کے لیے جغرافیائی طور پر موثر ترین محل وقوع حاصل ہے۔ وطن عزیز اس میدان میں تین بڑے مد مقابل ملکوں آسٹریلیا، برازیل اور انڈیا کی نسبت مشرق وسطی کے زیادہ قریب واقع ہے، جبکہ مذکورہ ممالک کو حلال کی ان برآمداتی منڈیوں تک رسائی کے لیے بحری سفر کے بہت بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ حال ہی میں متعدد پاکستانی کمپنیوں نے گوشت کے کاروبار کا آغاز کیا ہے، لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس حوالے سے بے ضابطگیوں کا پایا جانا ہے۔
البتہ اس حقےقت کو نظر انداز نہےں کےا جا سکتا کہ پا کستان مےں ےہ صلا حےت ہے کہ وہ مستقل حکمت عملی اور اقدامات کے ذرےعے حلا ل کی بےن الاقوامی فو ڈما رکےٹ مےں قا ئدانہ کر دار ادا کر سکتا ہے۔ حا لےہ بر سوںمےں مشرق وسطی اور جنوب مشرق اےشےا مےں صرف حلا ل گوشت کی درآمد مےں سالانہ 18.2فےصد اضا فہ ہوا ہے۔ ان برآمدات مےں پا کستان کا حصہ بمشکل تےن فےصد رہا۔ حا ل ہی مےں پا کستا ن نے سعود ی عرب، عرب اما رات اور دےگر خلےجی اور اےشےا ئی مما لک کی طرف گو شت برآ مد کےا۔ لےکن ےہ حلا ل سر ٹےفکےٹ کے بغےر تھا۔
مسلمانوں کی حالیہ آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے اور یہ 2.9 فیصد سالانہ کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے جو 2025 ء میں دنیا کی نصف آبادی ہو گی۔ اس بڑھوتری کے ساتھ حلال فوڈ اور شرعی رہنمائی سے تیار ہونے والی مصنوعات کی طلب بھی بڑھتی رہے گی۔ یہ صورتِ حال بڑے مواقع جنم دے گی۔ پاکستان اپنے بہترین مویشی، دودھ اور مرغبانی کے شعبہ جات کی بدولت اس قابل ہے کہ اپنی مستند مصنوعات کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں بہت بڑا اور نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔
غیروں کی غیر معمولی دلچسپی
آج حلا ل کا تصور تما م غذائی اور غےر غذائی مصنوعات حتی کہ خدمات تک کو شامل ہے۔ ''ما رکےٹ اسٹیٹس'' سے قبل حلال کی اصطلا ح صرف جا نو روں اور مر غےو ں کے گو شت کے لےے خا ص تھی،مگر حلا ل لےبل اس وقت اچھے معےار اور بہترےن مصنو عات کی علا مت بن چکا ہے اور اےسی مصنو عا ت کی مانگ نہ صرف اسلا می مما لک اور معاشروں مےں تےزی سے بڑھ رہی ہےں بلکہ غےر مسلمو ں کے ہا ں بھی اس کی طلب پا ئی جا تی ہے۔ آج تما م سا ما ن اور مصنوعا ت حتی کہ کا سمےٹکس، ادوےا ت، لبا س اور معا شی خد ما ت تک حلال سر ٹےفکےٹ کے سا تھ دستےا ب ہےں۔ ےہ صرف اس وجہ سے نہےں ہو رہا کہ غےر مسلم مما لک مےں مسلما ن صا رفےن کی تعداد مےں اضا فہ ہو رہا ہے، بلکہ اس کا سبب بذات خود عا لمی سطح پر فو ڈ انڈسٹری بن رہی ہے، حالانکہ تقر ےباً 80 فےصد حلا ل فو ڈ انڈسٹری اس وقت غےر مسلموں کے ہاتھ مےں ہے۔ برا زےل کئی دہا ئےوں سے حلال مصنو عا ت فرا ہم کر نے مےں پےش پےش ہے۔ بر ازےل اےک ملےن سے زائد مر غی کا منجمد گو شت دنےا کے 100ملکو ں کو درآمد کر تا ہے، جبکہ تےن لا کھ ٹن سے زائد بےف کی مصنو عات سعو دی عرب ، خلےجی ممالک اور اےران کو سالانہ درآمد کر تا ہے۔ تےن چوتھا ئی حلال چکن درآمد کر نے والی کمپنی فرانسےسی ہے۔ سپر ما رکےٹوں کی چَین حلا ل کے حوالے سے اپنا الگ سلسلہ رکھتی ہےں، لہذا کوئی بھی شخص دنےا بھر کے اسٹوروں، ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ کی دکا نوں پر حلا ل گوشت کی بڑھتی ہوئی ما نگ کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
یورپ میں حلال فوڈ کی مصنوعات کا اندازہ 66 بلین ڈالر سے لگایا گیا ہے جس میں ایک بڑا حصہ فرانس کے 17بلین ڈالر کا بھی ہے۔ یہ تو صرف ٹھنڈے ملکوں کی آمدنی ہے جبکہ حلال کی غذائی اور غیر غذائی دونوں طرح کی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ کا مجموعی حصہ 1.2 ٹریلین ڈالر سے 2ٹریلین ڈالر کے درمیان ہےں۔ مشرق میں امریکا، برازیل، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس حلال مصنوعات کے سب سے بڑے سپلائر ہیں۔ تھائی لینڈ اور اس کے بعد فلپائن، ملائشیا، انڈونیشیا، سنگاپور اور انڈیا بھی حلال کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ فرانس سالانہ 7 لاکھ 50ہزار ٹن منجمد حلال چکن، سعودیہ عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دیگر اسلامی ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ امریکا دنیا کا تیسرا بڑا بیف ایکسپورٹر ہے اور اس کا 80 فیصد سے زائد ''منجمد بیف'' حلال ہے۔ نیوزی لینڈ چوتھا بڑا ملک ہے اور اس کی 40 فیصد بیف مصنوعات حلال ہیں۔
2012 ء میں بھارت بیف کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن کر سامنے آیا، لیکن یہاں سے آنے والا بیف گائے کا نہیں ہوتا بلکہ بھینس سے حاصل شدہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گھٹیا اور کم قیمت شمار ہوتا ہے۔ بھارت اس مارکیٹ میں 2005 ء کے بعد آیا ہے کیونکہ بھارت کی سپریم کورٹ ''گاؤ کشی'' پر پابندی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے پاس اس حوالے سے ایک بڑا موقع تھا جسے نظر انداز کر دیا گیا۔ بہرحال! بھارتی بھینسوں کے گوشت کی طلب خلیج، ملائشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بوجہ یقینی طور پر حلال ہونے کے بڑھ رہی ہے۔
مسلمانوں کی حالیہ آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے اور یہ 2.9 فیصد سالانہ کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے جو 2025 ء میں دنیا کی نصف آبادی ہو گی۔ اس بڑھوتری کے ساتھ حلال فوڈ اور شرعی رہنمائی سے تیار ہونے والی مصنوعات کی طلب بھی بڑھتی رہے گی۔ یہ صورتِ حال بڑے مواقع جنم دے گی۔ پاکستان اپنے بہترین مویشی، دودھ اور مرغبانی کے شعبہ جات کی بدولت اس قابل ہے کہ اپنی مستند مصنوعات کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں بہت بڑا اور نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔