پاکستان میں توانائی کا بحران انتہا کو چھو رہا ہے۔بجلی کا مسئلہ پاکستان کGPD کا 2فیصد کھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میںگیس کے استعمال میں پریشان کن چلن ہے۔ جیساکہ گھریلو استعمال کا شیئر مسلسل بڑھتے ہوئے 23.2 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جبکہ 2008 میں یہ 16 فیصد تھا۔
دوسرا پر یشان کن عنصر کھاد کے شعبے کی طرف سے ہرسال 12 فیصد تک فیڈ اسٹاک
کھا د کی تیاری میں گیس کا خرچ مسلسل تین سال تک گراہے ، جس نے نہ صرف LSM پیداوار کو متأثر کیا ہے، بلکہ امپورٹڈ یوریا کی صورت میں امپورٹ بل میں بھی افراط زر پیدا کیا ہے۔ بڑے پیمانے پر گیس کی تخفیف سے کھاد کے شعبے کے لیے کوئی نیا نمونہ ظاہر ہوتا کھائی دیتا ہے جو بہت بڑی زرعی اقتصادیات کے لیے غیر صحت مندی کی علامت ہے۔گیس کے صرف میں پاور سیکٹر کا شیئر کم ہو کر 27.5 فیصد تک آچکا ہے،جبکہ مشرف دور میں یہ 40 فیصد کی بلند شرح پر تھا۔یہ منظر نامے کو واضح کرتا ہے کہ گریڈوں میں مزید میگاواٹ جمع کرنا ایسا عمل ہے جو ابھی مطلوب نہیں ہے، پہلے سے موجود کو چلانا زیادہ مؤثر ہے۔
سال بہ سال بجلی کا اوسط فی آدمی استعمال
2000 389کلو واٹ
2002 394کلو واٹ
2004 391کلو واٹ
2006 431کلو واٹ
2008 395کلو واٹ
2010 391کلو واٹ
2012 390کلو واٹ
بجلی کا اوسط فی آدمی استعمال
چین 2179 کلو واٹ
ایران 2160 کلو واٹ
انڈیا 166 کلو واٹ
پاکستان 430 کلو واٹ
سری لنکا 348 کلو واٹ
بنگلہ دیش 148 کلو واٹ
افغانستان 35 کلو واٹ
بجلی کی پیداوار
1971 7ارب 57کلو واٹ
1980 14ارب 97کلو واٹ
1990 37ارب 67کلو واٹ
2000 68ارب 12کلو واٹ
2005 93ارب 83کلو واٹ
2010 94ارب 45کلو واٹ