زراعت پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ برسر روزگار افرادی قوت میں سے45 فیصد افراد کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ22فیصد ہے۔ زراعت کا شعبہ ملک کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ متعدد صنعتوں کی پیداوار کا انحصار اسی پر ہے۔ اس کے باوجود قومی معیشت کے بنیادی شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے،حالانکہ کسانوں کو بلا امتیاز زرعی ترقی اور پیداوار میں اضافے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دے کر قومی معیشت
اور زرعی پیدوار سے متعلق صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
کسان فصلوں کی کاشت کے لیے بینکوں اور دوسرے زمینداروں سے قرضے لیتے ہیں۔ اس سے کھاد، بیج اور دیگر لوازمات خریدتے ہیں۔ قرض لینے کے بعد اگر فصل اچھی پیداوار نہ دے تو کسانوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے اور ملکی معیشت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے باوجود بینکوں کے ذریعے صرف 4.6فیصد قرضہ جاری کیا جاتا ہے جو کسانوں اور زراعت کی ترقی کے لیے کافی نہیں۔
کچھ سالوں سے زرعی شعبے کو قرض دینے میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے اہم نان فارم کے ذیلی شعبے مویشی پالنا، ماہی پروری، باغبانی اور جنگل بانی کو فروغ ملا ہے۔ لیکن زرعی قرضوں سے مستفید افراد کی تعداد ابھی محدود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قرض کے بجائے کسانوں کو درست پالیسیوں، ماحول دوست زراعت، پانی چوری کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور حقیقی کسان منڈیوں کے قیام جیسی سہولیات دیں جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو۔