پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے۔ زرمبادلہ کے حصول کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ملکی زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ہے جس میں سے ایک فیصد حصہ ماہی گیری کا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی800 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان سمندری خوراک یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں سمیت امریکا، جاپان، سری لنکا اور سنگاپور وغیرہ کو برآمدکرتا ہے۔ پاکستانی ماہی گیری کی صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے
، جن میں سے 25 لاکھ کاتعلق سندھ سے ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی عدم توجہی کے باعث ماہی گیری کی صنعت بین الاقوامی معیار کی سہولیات کے فقدان کا شکار رہی۔ اسی وجہ سے 2007ء میں یورپی یونین نے پاکستان سے سمندری غذاکی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس سے ماہی گیری کی صنعت کو شدید دھچکا پہنچا، اس کے باوجود بھی پاکستانی سمندری غذا کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر اس شعبے پر بھرپور توجہ دی جائے تو سی فوڈ کی برآمد سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
رواں سال 2013ء مارچ میں یورپی یونین نے پاکستان سے پابندی ختم کردی، کیونکہ چین اور ویت نام کے بعد یورپی ممالک میں مچھلی کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ پابندی اٹھائے جانے کے بعد روز بروز اس کی پروڈکشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔اب بھی ایک بنیادی رکاوٹ نقل و حمل کے اخراجات (transport costs)ہیں، جو مچھلی کے کاروبار کو متاثر کررہے ہیں۔
بلوچستان سے کراچی سی فوڈ پہنچانے میں ٹرانسپورٹیشن کافی مہنگی پڑتی ہے اس کو 2طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:
٭ بلوچستان کے ایکسپورٹر شپمنٹ کے لیے گوادر پورٹ استعمال کریں۔ ٭ اگر بلو چستان کے ایکسپورٹر کراچی سے شپمنٹ کریں تو گورنمنٹ ان کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات دے تا کہ وہ ایکسپورٹ مارکیٹ کا مقابلہ کر سکیں۔
مختلف مالی سالوں میں سمندری غذا کی برآمدات