لیجیے! معاشی بہتری کی مزید خبریں آنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستانیوں کو خوش خبری ہو کہ 2050ء تک پاکستان دنیا کی کئی معیشتوں کو پیچھے چھوڑکر 18ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں، برطانیہ کے ماہر اقتصادیات جم اونیل کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلی چار دہائیوں میں پاکستانی معیشت اتنی ترقی کر جائے گی کہ جرمنی کے موجودہ معاشی حجم کو بھی کراس کرلے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 3.33ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا ۔ واضح رہے پاکستان اس وقت معاشی اعتبار سے دنیا کا 44واں بڑا ملک ہے۔


مفتی محمد تقی عثمانی اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین مقرر
پاکستان میں ایک بار پھر معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کا غلغلہ بلند ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ ملک کو سودی نظام سے پاک کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر از سر نو غور ہونا چاہیے۔ بہرحال! ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جسٹس(ر) مفتی محمد تقی عثمانی کو اسٹیٹ بینک نے اپنے شریعہ بورڈ کا چیئرمین مقرر کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ حکومتی سطح پر اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔ یہ خبر بھی ہے کہ لندن اسکول آف اکنامکس سے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے سعید احمد کو اسٹیٹ بینک کا ڈپٹی گورنر بھی بنایا جارہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری مزید فروغ ملے گا۔

ٹیکسٹائل کی عالمی نمائش
ہیم ٹیکسٹائل ایکسپو سے پاکستان کا ہر ہر تاجر واقف ہے۔ یہاں ہر سال پاکستانی ایکسپورٹر جاتے ہیں اور یورپی ممالک سے کئی آرڈر لے کر واپس آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ نمائش منعقد ہوئی تو پاکستانی اسٹالز پر آرڈر دینے والوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ پہلے ہی دن فرنچ، جرمن اور اطالوی تاجروں نے متعدد سودے کیے۔ تولیے، بیڈویئر اور ہوم ٹیکسٹائل کے متعدد سودے طے کیے گئے۔ یورپی تاجروں کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دے دیا ہے۔

سرمائے کے بعد پاکستانی دماغ بھی بیرون ملک منتقل ہونے لگے
پاکستان سے صرف دولت ہی باہر نہیں جارہی، اب خبر ہے کہ پاکستانی دماغ بھی بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔ تلاش روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر جانے والوں کی تعداد اب 68لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا باہر جانا ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے، مگر معیشت دان اس پر خوش ہیں کہ سمندر پار پاکستانی وہاں سے سرمایہ اپنے ہی ملک میں بھیجتے ہیں۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ تلاش روزگار کے سلسلے میں جانے والوں کا سرمایہ پاکستان میں آتا ہے جبکہ پاکستان میں تجارت کرنے والے بزنس مین اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔ پاکستان سے سرمایہ باہر جائے یا ذہین دماغ، دونوں باتیں تشویش ناک ہیں۔