کام کام اور کام
معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا، اس کے لیے انسان کی عملی کوشش کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کسی سیانے کا مقولہ ہے: ’’بے کار نہ رہ، کچھ کیا کر‘‘ شریعت نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ جس نے کوشش کی، اس نے پالیا۔ اہل اللہ بھی یہی فرماتے ہیں: ’’ہاتھ بکار، دل بیار۔‘‘ یعنی ’’ہاتھ تو کام میں لگے ہوئے ہیں، مگر دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہے۔‘‘
دنیا کی تمام مخلوق کارِیار میں لگی ہوئی ہے۔ انسان پرکام کے معاملے میں اضافی ذمہ داریاں پڑی ہیں۔ اُس پر امانت کا بوجھ ہے۔ جس کیحصار میں مسلمان اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔
ایک واقعہ سنیے کہ ایک بزرگ اپنے رفقا کے ساتھ جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شخص بے کار بیٹھا ہوا تھا۔ بزرگ نے اس کو سلام نہ کیا۔ واپسی پر وہ تنکے سے زمین کرید رہا تھا تو بزرگ نے سلام کیا۔ ساتھیوں کو جستجو ہوئی کہ پہلے تو سلام نہ کیا اور اب کیوں کیا۔ اہل اللہ بھی اہل حکمت ہوتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: پہلے یہ شخص بے کار بیٹھا تھا، اس لیے مجھے سلام کرنا اچھا نہیں لگا اور واپسی پر یہ کچھ کر رہا تھا تو میں نے پسند کیا کہ سلام کروں۔ اس واقعے سے بھی کام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
انسان کی زندگی کے شب و روز مصروفیت سے بھرے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ دن کو کام کرتے ہیں اور کچھ رات کو کام میں لگے ہوتے ہیں۔ کوئی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ گورنمنٹ ملازمین 7 سے 8 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بعض حضرات کی 12 گھنٹے ڈیوٹی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں سے زبردستی زیادہ کام بھی لیاجاتا ہے، جب کہ اُن کا معاوضہ وقت کے مطابق نہیں ملتا۔ دنیا میں تہذیب و تمدن کا عروج وزوال جاری ہے۔ تعمیر و تخریب، جنگ و جدل، تجارت اور اسلحہ ساز فیکٹریاں سب کام ہو رہے ہیں۔
عام آدمی بھی صبح سویرے اپنی دیہاڑی لگانے اپنے گھر سے نکلتا ہے۔ شام تک دنیا بھر کے دھکے کھا کر حلال روزی گھر لا کر کھاتا اور کھلاتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے۔
٭… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی خوب تجارت کیا کرتے تھے۔ انڈونیشیا، جاوا اور جاپان تک اسلام کی کرنیں صحابہ کرام کی تجارت کی مرہون منت ہیں
صبح سویرے آغاز
صبح سویرے، خاص کر نماز فجر کے بعد سے روزی کی تلاش کرنا، اپنے کامو ں پر جانا مسنون بھی ہے اور اس کا حکم بھی ہے۔
ایک حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق: جو لوگ بے کار سورج کے نکلنے تک سوئے رہتے ہیں، شیطان اُن کے کانوں میں پیشاب کر دیتا ہے۔ حرام سے اجتناب کیجیے، کام حلال بھی ہیں اور حرام بھی۔ اسلام نے حرام کاموں سے منع کر دیا ہے۔ کیونکہ حرام کام آخرت کو تباہ کر دینے کا باعث ہوتے ہیں۔ ہر وہ کام جس کی شریعت نے نفی کر دی ہے، اس سے بچ جانا ہی عقل مندی ہے۔
شراب، جوا، ناجائزکاروبار اور حرام مال کی تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان کے پاس کرنے کو بہت سے حلال کام موجود ہیں۔
تجارت برائے خدمت اسلام
ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی خوب تجارت کیا کرتے تھے۔ انڈونیشیا، جاوا اور جاپان تک اسلام کی کرنیں صحابہ کرام کی تجارت کی مرہون منت ہیں۔
انہوں نے اپنی تجارت کو دین پھیلانے کا ذریعہ بنایا تو خود بھی چمک گئے اور ان کی تجارت بھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مدینہ میں امیر ترین شخص تھے۔ جن کے مال سے دین کو بہت فائدہ پہنچا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم تجارت کیا کرتے تھے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی بڑے تاجر تھے۔ جنہوں نے اللہ کی راہ میں کروڑوں خرچ کیے۔ یہ وہ پاک نفوس تھے جنہوں نے اپنی تجارت کو حلال اشیا پر پروان چڑھایا۔
آج کا مسلمان بھی اگر حلال تجارت کرے تو ضرور بہ ضرور کامیاب ہو گا۔ مگر ہماری بے بسی یہ ہے کہ چاروں طرف سودی تجارت کا بول بالا ہے، پھر بھی اہل دل کام کر رہے ہیں۔ میزان بینک اور دیگر اسلامی بینکوں میں نفع و نقصان کی بنیاد پر غیر سودی قرض دیا جاتا ہے۔ مسلمان کو بھی یہ اُمید رکھنی چاہیے جو تجارت یا کام اللہ پاک کے قائم کردہ قوانین کے مطابق ہوں گے اللہ پاک ان کو نقصان سے بچا کر اعلیٰ درجے کا نفع اور ثواب بھی عطا کرے گا۔
ہمیں اپنے کام کو توازن، ترغیب اور تعلق مع اللہ کے ذریعہ مندرجہ ذیل نکات کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے
: 1 جس طرح ایک موٹر سائیکل سوار سفر کے دوران اپنی اسپیڈ کو قائم رکھ کر اپنے توازن اور تسلسل کو برقرار رکھتا ہے، وہ مقررہ وقت کے اندر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان تاجر کو اپنے کاروبار میں اپنی کارکردگی کی رفتار قائم رکھنی چاہیے۔ اُسے کام میں تسلسل برقرار رکھنا چاہیے۔
2 ملازمین کو ترہیب اور ترغیب کے ذریعے اپنے اہداف کو پورا کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ تجارت کے لیے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لانے چاہییں اور نظر اپنے طے کردہ اہداف پر رہنی چاہیے۔
3 جب تاجر اپنی تمام تر کوششوں میں کامیاب ہو جائے تو آخر میں اپنی نظر اللہ کی مشیت و چاہت پر رکھے اور دل میں یہ نیت کرے کہ اے اللہ! میں نے آپ کے حکم کے مطابق تمام اسباب اختیار کر لیے۔ اب میں نفع کے لیے آپ پر ہی بھروسہ کرتا ہوں، کیونکہ اسباب میں نفع حاصل کرنے کی قوت نہیں۔ وہ قوت آپ خود ہیں، کیونکہ آپ ہی ہمارے رازق اور معین و مدد گار ہیں۔ ہم آپ ہی کی ذات اقدس سے اُمید لگائے ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے والا تاجر یعنی جو ایمان داری سے کاروبار کرتا ہے، روز حشر اس کو اللہ تعالی انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھائے گا۔