تکافل کی ترقی میں سب سے بڑی اور اہم رکاوٹ عوام الناس میں اِس کے بارے میں درست معلومات کا نہ ہونا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اِس نظام کو متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، نیز اِس کے بارے میں عام لوگوں کو آگاہ کرنے کی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ اِس علمی کمی کی وجہ سے لوگ اپنی سمجھ کے مطابق تکافل کے بارے میں رائے دینے لگتے ہیں، جو اکثر و بیشتر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِس کی درست صورت لوگوں کے سامنے نہیں آتی۔

بعض لوگ اِسے انشورنس ہی کی طرح قرار دے کر اِسے اختیار کرنے سے رُک جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ ابھی تک مکمل طور پر اِسلامی نہیں ہے۔ الغرض! جتنے منہ اُتنی باتیں۔

اِس اہم مسئلے کے حل کے لیے تکافل کے اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ عوامی سطح پر تکافل کے بارے میں صحیح معلومات پر مبنی مختلف نوعیت کے پروگرام کریں جو نہ صرف مفت ہوں بلکہ عام لوگوں کی اُن پروگرامز تک رسائی بھی ممکن اور آسان ہو۔ تکافل کے تعارف کے لیے ابھی تک جو پروگرامز ہو رہے ہیں، وہ عام طور پر فائیو اسٹار ہوٹلز اور اِس طرح کی مہنگی جگہوں میں منعقد ہوتے ہیں، جہاں شرکت کے لیے بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور اگر مفت بھی ہو تو ہر ایک کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی، لہٰذا عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ چند لوگ ہی اِن پروگرامز میں بار بار شرکت کرتے ہیں اور چونکہ بنیادی معلومات ایک ہی طرح کی ہوتی ہے، لہٰذا اکثر شرکا یا تو پروگرامز کے دوران سو رہے ہوتے ہیں یا پھر باہر گھوم پھر کر وقت گزار دیتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں، جو ظہرانے کے وقت آتے ہیں اور تھوڑی دیر شرکت کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ اِس طرح ان پروگرامز کی افادیت میں کمی آ جاتی ہے۔

تکافل کی اہمیت کے پیشِ نظر اِس کی معلومات و آگہی کے پروگرامز کو آسان سے آسان تر بنایا جائے۔ عام عوامی جگہوں میں اِن کا انعقاد کیا جائے۔ اِس سے نہ صرف بے جا اخراجات سے چھٹکارا ملے گا بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک علم بھی پہنچے گا۔ دین بھی اسراف (بے جا خرچ) سے منع کرتا ہے اور تکافل تو ہے ہی مستقبل کے لیے بچت کرنے کا نام۔ اِس طرح یہ پروگرامز اِسم بامسمّٰی بن جائیں گے۔

تکافل کے بارے میں علم و آگہی کے پروگرامز علمائے کرام کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایک عالم کو تکافل کے بارے میں درست معلومات دے کر اُنہیں اِس کی شرعی حیثیت سے آگاہ کر دیا جائے تو وہ اپنے زیرِ اثر علاقے میں سیکڑوں افراد کو بڑی آسانی سے اِس نظام کو اپنانے پر قائل کر سکتے ہیں۔ علمائے کرام کو تکافل کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت اِس لیے پیش آ رہی ہے کہ اگرچہ وہ تکافل میں استعمال ہونے والے شرعی اُصولوں، مثلاً: وقف، ہبہ، مضاربہ اور تبرّع وغیرہ کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن اِس کی عملی صورت کو نہیں جانتے اور اُنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جدید اصطلاح میں انہیں کیا کہا جاتا ہے، لہٰذا عملی صورت سے اُنہیں آشنا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ویسے بھی علمائے کرام کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بذاتِ خود اِن معاملات کو جاننے کی کوشش کریں۔ مشہور قول ہے: ’’مَنْ لَّمْ یَعْرِ فْ زَمَانَہُ فَھُوَجَاہِلٌ‘‘ یعنی ’’جو اپنے زمانے کو نہیں جانتا، وہ جاہل ہے۔‘‘

2 نیتوں میں اِخلاص
کسی بھی عمل میں حقیقی کامیابی کے لیے نیتوں میں اِخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ اگر نیت میں فتور ہو تو عمل کتنا ہی مستحسن و محبوب کیوں نہ ہو، اُس کے دنیاوی و اُخروی فوائد حاصل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نیتوں میں درستی کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مشہور حدیث ہے: ’’اِنَّمَا الُاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ‘‘ یعنی بے شک اعمال (کی قبولیت و عدمِ قبولیت) کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت میں اِخلاص نہ صرف تکافل کے ادارے قائم کرنے والوں میں ہونا چاہیے بلکہ شرکائے تکافل میں بھی یہ اتنا ہی ضروری ہے۔

عام طور پر تکافل کو بھی انشورنس کی طرح صرف ایک نفع بخش کاروباری ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری توجہ منافع کے حصول کی جانب لگ جاتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ تکافل کا ایک مقصدلوگوں کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، جہاں وہ انشورنس کی خرابیوں سے دور رہتے ہوئے مستقبل کے پیش آمدہ مالی نقصانات کا ازالہ کر سکیں تو دوسری طرف کمپنی قائم کرنے والے اِس سے منافع بھی حاصل کریں۔ لیکن یہاں یہ ضروری ہے کہ امدادِ باہمی اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا تصور منافع کمانے کے تصور پر غالب ہونا چاہیے۔ اِس سے اِمدادِ باہمی کا مقصد بھی حاصل ہو جائے گا، جو تکافل کی اصل روح اور بنیادی مقصد ہے اور منافع بھی۔ اِس سے معترضین کے اِس اعتراض کو بھی دور کیا جا سکتا ہے کہ تکافل کا مقصد بھی انشورنس کی طرح صرف منافع کمانا ہے۔ غور کرنے پر یہ اعتراض حقیقی بھی لگتا ہے، لہٰذا ادارے قائم کرنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت یہاں بہت ضروری ہے۔ اگرچہ موجودہ مادیت پرست معاشرے میں یہ مشکل ضرور ہے، لیکن اگر کوشش کی جائے تو اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ راقم کی رائے میں یہ اہم فریضہ تکافل میں اپنی خدمات انجام دینے والے شرعی مشیران بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ شرکائے تکافل کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کی غرض سے اُنہیں تحریری و تقریری طور پر اِخلاصِ نیت کی اہمیت بتائی جائے تو خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ کئی اعمال اپنی ظاہری شکل و صورت میں دنیاوی اعمال لگتے ہیں، لیکن نیت کے اخلاص کی وجہ سے وہ اُخروی اعمال بن جاتے ہیں۔ حدیث مبارک یہ ہے: ’’کتنے ہی اَعمال ایسے ہیں، جو (ظاہری اعتبار سے) دنیاوی ہیں، لیکن پھر نیت کی اچھائی کی وجہ سے وہ آخرت کے اعمال بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح بہت سے اَعمال ایسے ہیں، جو (ظاہری اعتبار سے) آخرت کے اَعمال معلوم ہوتے ہیں، لیکن نیت کی خرابی کی وجہ سے وہ دنیا کے اعمال بن جاتے ہیں۔‘‘