٭۔۔۔۔۔۔انشورنس کی اصلیت تو تعاون محض تھی لیکن اس کا انجام بھی ہر اس ادارے کا ساہوا جو یہودیوں کے ہاتھ میں پڑا

٭۔۔۔۔۔۔''تکافل'' درحقیقت مروجہ انشورنس یا بیمہ کے عمومی مسئلے کا جائز حل یا متبادل ہے

٭٭٭

ضرورت سے متبادل تک:

انشورنس، بیمہ یا تامین کے مختلف الفاظ کے پیچھے ایک تصور کار فرماہے اور ایک ضرورت۔ یہ ایک سودی نظام ہے ، جسے لوگوں کی ناگزیر ضرورت بناکر ہر شعبہ زندگی کو اس سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یوں تو اس کی قباحت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی بنیاد سود پر رکھی گئی ہے۔ اس کا مختصر پس منظر اور انجام کا ذکر کرتے ہوئے اصل موضوع ''تکافل'' کی طرف بڑھتے ہیں۔ تکافل اسی انشورنس کا غیرسودی متبادل ہے۔ جس کا کم از کم تعارف ہر تاجر کے لیے نہایت اہم ہے۔
بیمہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو مستقبل میں جو خطرات درپیش ہوتے ہیں، کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لیتا ہے کہ فلاں قسم کے خطرات کے مالی اثرات کی میں تلافی کروں گا۔ مشہور یہ ہے کہ اس کا آغاز چودہویں صدی عیسوی میںہوا۔ دوسرے ممالک کی تجارت میں مال بحری جہاز سے روانہ کیا جاتا تھا۔ بحری جہاز ڈوب بھی جاتے تھے اور مال کا نقصان ہوتا تھا۔ بحری جہاز کے نقصان کی تلافی کے لیے ابتدا میں بیمہ کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ بیمہ کی ابتدا اٹلی کے اسلحہ تاجران سے ہوئی۔ بعض تاجروں کا مال تجارت سمندر میں ضائع ہوجاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ انتہائی تنگدستی کا شکار ہوکر رہ جاتے۔ اس صورت حال کا حل یہ نکالا گیا کہ اگر کسی شخص کا مال تجارت سمندر میں ضائع ہوجائے تو تمام تاجر مل کر اس کی معاونت کے طور پر اسے ہرماہ یا ہر سال ایک معین رقم ادا کیا کریں۔ یہی تحریک ترقی کر کے جہازوں کے بیمہ تک پہنچی کہ ہر ممبر ایک مقررہ رقم اداکرے، تاکہ اس قسم کے خطرات کے موقع پر نقصان کا کچھ نہ کچھ تدارک کیا جاسکے۔ ایک اور تفصیل کے مطابق سب سے پہلے اندلس کی مسلم حکومت کے دور میں بحری تجارت میں حصہ لینے والے مسلمانوں نے تجارتی بیمہ کی روایت ڈالی۔ ابتدا میں بیمہ کی شکل سادہ سی تھی۔ بعد میں اس کی نئی نئی صورتیں نکلتی اور تجربے ہوتے رہے۔
اب دنیا کی حکومتیں بیمہ کو لازمی قرار دے رہی ہیں۔ جس کو ''ریاستی بیمہ'' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 1400 ء میں انشورنس کی ابتدا ہوتے ہی اس کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اس کے مقدمات اس کثرت سے عدالتوں میں آنے لگے کہ 1435 ء میں اس کے لیے خاص عدالتیں مقرر کی گئیں۔ جو صرف بیمہ کے مقدمات کی سماعت کریں۔ ''بیمہ بحری '' کے بہت عرصہ بعد ''بیمہ بری'' شروع ہوا۔
خلافت عثمانیہ کے زمانے میں جب حکومت ترکی کے تجارتی تعلقات یورپ کے ملکوں سے قائم ہوئے تو یورپین تاجروں کے توسط سے بیمہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا۔ اس کے بارے میں علمائے وقت سے سوالات پوچھے جانے لگے، چنانچہ 13ہویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے بھی اپنی کتاب ''ردّالمحتار'' میں ''مُستامن'' کےاحکامبیانکرتےہوئے ''سوکرہ ''کےنامسےاسکاذکرکیاہے۔
ان تفصیلات سےمعلوم ہواکہ بیمہ بحریاس زمانےمیں اچھاخاصہ فروغ پاچکا تھا۔ یورپی ملکوں سے جو جہاز کرایہ پر لیے جاتے تھے۔ ان کا لازمی طور پر بیمہ کرایا جاتا تھا۔ بیمہ کمپنیوں کا عمل دخل ترکی حکومت میں جاری تھا۔ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ ترکی کی بندرگاہوں پر باضابطہ سلطانی اجازت کے بعد مقیم تھے اور انہوں نے اپنے دفاتر قائم کر لیے تھے۔ یہاں تک کہ علمائے وقت کے پاس اس بارے میں کثرت سے سوالات آنے لگے۔ اگرچہ اس کی اصلیت تو تعاون محض تھی لیکن اس کا انجام بھی ہر اس ادارے کا ساہوا جو یہودیوں کے ہاتھ میں پڑا کہ یہودیوں نے اس نظام کو جس کی بنیاد ''تعاونوا علی البّر والتّقویٰ''پر تھی۔ اسے ایک ایسے یہودی نظام میں تبدیل کردیا جس میں جوا اور سود دونوں پائے جاتے تھے۔

ضابطے کی بات: اسلام ایک مکمل ضابطہئ حیات ہے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کی شریعت تا قیامت آنے والے لوگوں کے لیے دین، رہنما اور راہ نجات ہے۔ اسلام کے مکمل ضابطہئ حیات ہونے کا مطلب ہے اسلام میں ہر مسئلہ، ہر واقعہ اور ہر حادثہ کا مکمل حل موجود ہے۔ کسی بھی زمانے میں کوئی بھی مسئلہ یا حادثہ پیش آئے، خواہ وہ انفرادی اور شخصی مسئلہ ہو، یا اجتماعی مسئلہ ہو، قرآن و حدیث یا اس سے نکالے گئے اصول قواعد و ضوابط کی روشنی میں وقت کے ماہر علمائے کرام اس کا حل نکال سکتے ہیں اور وہ حل قرآن و حدیث کی طرف ہی منسوب ہوگا، بعض اوقات کوئی حکم پیچیدہ اور غیر واضح ہوتا ہے اس کے لیے پھر اجتماعی غور وخوض کی ضرورت پڑتی ہے۔ علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اس کا حل نکالتے ہیں۔
''تکافل'' کی اصطلاح بھی اسی قبیل سے ہے۔ یہ جس نظام کے لیے وضع کی گئی ہے، اس نظام کی اساس، اس کا تصور قرآن و حدیث، فقہ اور سیر کی کتابوں میں موجود ہے۔
''تکافل'' درحقیقت ایک اجتماعی مسئلہ کا جائز حل یا متبادل ہے، اجتماعی مسئلہ سے مراد مروجہ انشورنس یا بیمہ ہے، جس کی بلا شبہ ہر زمانہ میں ضرورت رہی ہے اور بالخصوص اس زمانہ میں اس کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔