سوال میں فالج کا مریض ہوں اور معذور ہوں۔ پیشے کے اعتبار سے سنار ہوں اور ایک دکاندار (جیولر) کو پالش تک تیار کام چار رتی ویسٹیج اور 360 روپے تولہ مزدوری کے عوض جمع کراتا تھا۔ جس کی ترتیب یہ تھی کہ آرڈر پر پندرہ دن میں کام تیار کر کے دیتا تھا اور جمع کرانے کے پندرہ دن بعد جمع شدہ زیورات کے وزن کا سونا بمع چار رتی ویسٹیج اور 360 روپے تولہ کے حساب سے مجھے مزدوری مل جاتی تھی۔ اس طرح ایک مہینہ میں 20 سے 30 تولہ تک سونا جمع کراتا تھا۔
تقریباً چھ ماہ تک اس طرح کام کرنے کے بعد دکاندار نے میری جسمانی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو کام تیار کرانے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ (کیونکہ میں خود معذور ہو نے کی وجہ سے دوسروں سے زیور تیار کراتا تھا) اس لیے آپ نے جتنا سونا کام کے لیے مختص کیا ہے، وہ آپ ہمیں دے دیں، ہمارا کارخانہ بھی ہے ہم آپ کی طرف سے جمع کرائے ہوئے سونے پر ہر ماہ مزدوری اور ویسٹیج کے علاوہ جتنا آپ نفع لیتے تھے وہ نفع ہم آپ کو دیا کریں گے۔ اور یہ نفع ہم آپ کو آرڈر ملنے پر دیا کریں گے۔ یعنی جتنے سونے کا آرڈر ملے گا اسی کے مطابق نفع دیں گے۔
مجھے مذکورہ بالا سابقہ معاملے میں صرف چار رتی ویسٹیج اور 360 روپے فی تولہ رقم ملتی تھی جس میں ایک رتی اور 350 روپے مزدوری اور باقی تین رتی میری بچت ہوتی تھی۔ اس طرح نئے معاملے کی صورت یہ طے پائی کہ دکاندار مجھے ایک رتی اور 350 روپے فی تولہ مزدوری کے علاوہ صرف فی تولہ تین رتی دیا کرے گا جو میرا خالصۃً نفع ہوتا تھا۔ میں نے کل سونا 383 گرام جمع کرایا ہے۔ دکاندار مجھے اس کل سونے پر فی الوقت نفع دینے کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ آرڈر کے اعتبار سے 200، 300 گرام جتنا سونا بھی استعمال ہو گا۔ وہ اس پر مجھے پندرہ دن بعد فی تولہ تین رتی نفع اور بقیہ سونا (جو استعمال ہوا ہو گا) ادا کرے گا۔ گویا کہ دکاندار کے پاس میرا سونا موجود ہے، وہ آرڈر کے حساب سے مجھ سے سونے کے بدلے میں سونا خریدتا رہتا ہے جس میں وہ مجھے فی تولہ تین رتی نفع دیتا ہے۔ خود زیور تیار کر کے گاہک کو اپنی حسب صوابدید فروخت کرتا ہے۔ آرڈر کے علاوہ میرا سونا اس کے پاس بطور امانت ہوتا ہے۔ وہ میرے سونے کا امین ہوتا ہے۔ نیز اگر میں سونا اس کے پاس امانت نہ رکھوں بلکہ سونا میرے پاس رہے اور آرڈر کے مطابق دکاندار مجھ سے وصول کرتا رہے تو کیا حکم ہو گا؟ برائے کرم اس معاملے کے متعلق تفصیلی جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ یہ معاملہ جائز ہے یا نہیں؟
(شیخ مظفر، نارتھ کراچی)
جواب
آپ کا دکاندار کے ساتھ کیا گیا مذکورہ معاملہ جائز نہیں، کیونکہ اگر اس معاملے کو بیع قرار دیا جائے تو اس میں دو خرابیاں لازم آتی ہیں: اول یہ کہ اس معاملے میں بیع کی شرائط ایجاب و قبول وغیرہ نہیں پائی جا رہیں۔ دوم یہ کہ اس میں سونے کی خرید و فروخت سونے کے عوض ہوئی ہے۔ اور سونے کی سونے کے عوض خرید و فروخت میں شرعی اعتبار سے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: اول یہ کہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہو، یعنی مجلسِ عقد میں فریقین سونے پر قبضہ کریں۔ دوم یہ کہ فریقین میں سے کسی طرف سے سونے میں کمی زیادتی نہ ہو، بلکہ دونوں طرف سے سونے کی مقدار کا برابر ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی طرف سے سونے کی مقدار زیادہ ہو گئی تو وہ سود شمار ہو گا، جو کہ شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔ جب کہ مذکورہ صورت میں مجلسِ عقد میں فریقین کا قبضہ بھی نہیں ہو رہا اور ایک طرف سے سونے کی مقدار میں زیادتی بھی ہوئی ہے۔
اور اگر اس کو وکالت کا معاملہ قرار دے کر دکاندار کو وکیل بالبیع کہا جائے تو عقد وکالت میں تمام نفع موکل کا اور وکیل کے لیے طے شدہ اجرت ہونی چاہیے۔ جب کہ مذکورہ صورت میں نفع وکیل کا ہے اور موکل کو طے شدہ اجرت (بطور نفع) ملتی ہے۔ اس لیے اس کو وکالت کا معاملہ قرار دے کر بھی جائز نہیں کہا جا سکتا، لہذا اس معاملے کو ختم کرنا ضروری ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ آپ دکاندار کو وکیل بالبیع و الشراء (سونا بیچنے اور خریدنے کا وکیل) بنا دیں اور اس کی اجرت (خواہ اتنی مقدار میں ہو جتنی اس کو پہلی صورت میں بطور نفع حاصل ہوتی تھی) مقرر کر دیں، وہ آپ کے سونے کا زیور بنا کر کسٹمرز کو بیچتا رہے اور مزید سونا خریدتا رہے۔ جتنا نفع حاصل ہو، اس میں سے اپنی اجرت رکھنے کے بعد بقیہ نفع آپ کو دے دیا کرے۔ نیز اس صورت میں بھی آپ کا سونا دکاندار کے پاس بطور امانت ہو گا، لہذا اگر دکاندار کی تعدی کے بغیر ضائع ہو گیا تو دکاندار پر اس کا کوئی ضمان نہ آئے گا۔